امریکا میں سوشل میڈیا قوانین مزید سخت کرنے اور خلاف ورزی پر سخت ایکشن لینے کیلئے دائر دو اہم مقدمات سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
یہ عدالت کی جانب سے وفاقی قانون کا پہلا جائزہ ہے، جو بڑے پیمانے پر ویب سائٹس کو صارفین کے تیار کردہ مواد پر مقدمات سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کل تک زبانی دلیل سننے کے بعد اس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ صارفین کے نفرت آمیز اور دہشتگردی کے مواد کی میزبانی کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیوں پر مقدمہ دائر کیا سکتا ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ کل تک ان دو معاملوں میں بیک ٹو بیک زبانی دلائل سننے کے لئے تیار ہے، جو آن لائن تقریر اور مواد کے اعتدال کو نمایاں طور پر تبدیل کرسکتا ہے۔
ایپس اور ویب سائٹس کے مواد کی میزبانی یا فروغ کے قانونی خطرے میں توسیع فیس بک، ویکیپیڈیا اور یوٹیوب سمیت سائٹوں پر بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
اس قانونی چارہ جوئی نے انٹرنیٹ کے مستقبل پر ممکنہ اثرات کے بارے میں ٹیک سیکٹر کی طرف سے سالوں میں سب سے زیادہ شدید بیان بازی پیدا کی ہے۔
امریکی قانون ساز، سول سوسائٹی کے گروپس اور دو درجن سے زائد ریاستیں بھی عدالت میں دائر درخواستوں کے ساتھ بحث میں کود پڑیں ہیں۔
قانونی لڑائی کے مرکز میں کمیونیکیشن شائستگی ایکٹ کی دفعہ 230 ہے، جو تقریبا 30 سال پرانا وفاقی قانون ہے جس کے بارے میں عدالتیں بارہا کہتی رہی ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کو وسیع تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
اس کے بعد سے بگ ٹیک کے مواد میں اعتدال کے فیصلوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کے ساتھ ساتھ اس کی جانچ پڑتال بھی کی جا رہی ہے۔
اس قانون کے دونوں طرف ناقدین موجود ہیں، بہت سے ریپبلکن عہدیداروں کا الزام ہے کہ دفعہ 230 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قدامت پسند نقطہ نظر کو سنسر کرنے کا لائسنس دیتی ہے۔
صدر جو بائیڈن سمیت معروف ڈیموکریٹس نے دلیل دی ہے کہ دفعہ 230 ٹیکنالوجی کمپنیوں کو غلط معلومات اور نفرت انگیز تقاریر پھیلانے کے لئے جوابدہ ہونے سے روکتی ہے۔