اسلام آباد: چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات کم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ نے یہ بیان اس وقت دیا جب وہ لاہور کے سابق سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
انہیں سپریم کورٹ نے غلام محمود ڈوگر کو ہٹانے کی وجوہات کی وضاحت کرنے کے لئے طلب کیا تھا۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود سی سی پی او کو کیوں ہٹایا گیا اور تبادلے کے احکامات جاری کرنے میں کیا جلدی ہے؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے حکم پر کیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ افسران کے تبادلوں میں الیکشن کمیشن کا کیا کردار ہے؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا کردار الیکشن کے اعلان کے بعد نافذ العمل ہوتا ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ غلام محمود ڈوگر کو ہٹانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے منظوری لے لی گئی ہے، کیونکہ نگران سیٹ اپ قائم کر دیا گیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ آئین کے مطابق نگران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 90 دن کے اندر اندر انتخابات کروانا ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کہاں ہے، جب کہ جسٹس نقوی نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب میں تعینات نصف افسران کا تبادلہ ہوچکا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب کا کوئی ایسا ضلع ہے جہاں تبادلہ نہ ہوا ہو۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو غلام محمود ڈوگر کی تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کا علم ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن اپنے کام کے علاوہ سب کچھ کر رہا ہے۔
بنچ نے سمن جاری کرنے کے بعد سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کردی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کو بتایا کہ آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا کام ہے اور اگر مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں 90 دن میں انتخابات کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے، آئین میں یہ واضح ہے کہ عبوری حکومت کو افسران کو ہٹانے کا اختیار نہیں ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اگر تبادلے کی ضرورت ہے تو نگران حکومت کو ٹھوس وجوہات فراہم کرنے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن ان وجوہات کا جائزہ لے اور پھر مناسب حکم جاری کرے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو صوبے کے احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس پر الیکشن کمیشن کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ اگر عدالت چاہے تو غلام محمود ڈوگر کو سی سی پی او کے عہدے پر بحال کر سکتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک ہی پالیسی کے تحت پورے صوبے میں تقرریوں اور تبادلوں کی اجازت نہیں دی، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے کچھ کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ریجنل پولیس افسران اور دیگر کے تبادلے ضروری ہیں۔
سکندر سلطان راجا نے کہا کہ اگر عدالت حکم دیتی ہے تو ہم تبادلوں کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت ایسا کوئی حکم جاری نہیں کرے گی، آئین پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔