پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے جس کے تحت سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی اجازت دی گئی تھی۔
سابق وزیر اعظم نے ایک نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ توسیع کی قانون سازی کے غیر معمولی عمل کو معمول بنا دیا گیا ہے، اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ایسا نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔
شاہد خاقان عباسی نے جنوری 2020 میں آرمی ایکٹ 1952 کے تحت سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو بھی ‘غلطی’ قرار دیا۔
جنرل (ر) باجوہ کو 29 نومبر 2019 کو اپنی مقررہ مدت کے اختتام پر ریٹائر ہونا تھا لیکن اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے 19 اگست 2019 کو ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی تھی۔
واضح رہے کہ 28 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی قانون موجود نہ ہونے پر حکومتی حکم معطل کردیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا دوبارہ تقرری سے متعلق قانون سازی 6 ماہ کے اندر منظور کرنے کی یقین دہانی کے بعد جنرل (ر) باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی۔
جنرل (ر) باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن بالآخر 28 جنوری 2020 کو اس وقت جاری کیا گیا جب پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق معاملے کو حل کرنے کے لیے قانون منظور کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ترمیم کو “پہلے دن سے ہی غلطی” سمجھتے ہیں۔
قانون میں ترمیم کے مطابق ایک حاضر سروس آرمی چیف کو تین سال کی مدت کے لیے دوبارہ تعینات کیا جا سکتا ہے اور اس تقرری کو مستقبل میں کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ توسیع پہلے ہی دی جا چکی ہے اور جب قانون سازی کی گئی تو سابق آرمی چیف نے پہلے ہی اسے قبول کر لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت توسیع پر قانون سازی نہ کرنا ملک کے مفاد میں نہیں تھا۔ لیکن اب اس ترمیم کو منسوخ کیا جانا چاہیے جس میں وزیر اعظم کو توسیع دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اگست 2019 میں سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی ۔