اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم سواتی کی جانب سے توہین عدالت کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اعظم سواتی 27 نومبر سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، جب انہیں سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کے الزام میں دوسری بار گرفتار کیا گیا تھا۔ ستر سالہ شخص نے باجوہ پر قسم کے الفاظ استعمال کیے۔
سواتی نے 26 نومبر کو اپنے خلاف دائر کیس کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت پر رہائی کے لئے درخواست دائر کی تھی۔ اس سے پہلے 21 دسمبر کو دائر کی گئی ان کی عرضی کو ٹرائل کورٹ کے جج اعظم خان نے خارج کر دیا تھا، جنہوں نے کہا تھا کہ سینیٹر نے ایک ہی جرم دو بار کیا تھا۔
اپنی درخواست میں سینیٹر نے کہا کہ انہوں نے کسی ادارے کے خلاف توہین آمیز تبصرہ نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات کے باوجود استغاثہ کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی کی عمر 75 سال ہے اور وہ دل کے مریض ہیں اور انہیں جیل بھیجنا بغیر کسی سزا کے سزا ہوگی کیونکہ ان کے خلاف تمام شواہد دستاویزی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے خصوصی پراسیکیوٹر کی موجودگی کے بغیر کیس کی سماعت کی۔ اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان اپنے موکل کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے۔
بابر اعوان نے کہا کہ سواتی کا بیٹا عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا چاہتا ہے۔
سواتی کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ‘میرے والد نے ایک خط لکھا تھا، میں اسے عدالت کی اجازت سے پڑھنا چاہتا ہوں’۔
اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ خط عدالت کے سامنے پیش ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنے کے لئے ایک بڑی بنچ تشکیل دی جائے گی۔
اعظم سواتی کے وکیل نے کہا کہ عدالت آج اس معاملے کو دیکھے، جس پر عدالت نے کہا کہ آج لارجر بینچ نہیں بن سکتا۔