افغان طالبان نے ملک میں خواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی عائد کردی۔
غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت ہائر ایجوکیشن نے تمام سرکاری اور نجی جامعات کو جاری خط میں لکھا کہ غیرمعینہ مدت کے لیے لڑکیوں کی جامعات میں تعلیم پر پابندی ہوگی۔
وزیرہائر ایجوکیشن ندا محمد ندیم کے دستخط سے جاری خط میں کہا گیا کہ ’آپ سب کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ خواتین کی تعلیم پر تاحکم ثانی مذکورہ حکم پر عمل درآمد کیا جائے‘۔
وزارت کے ترجمان ضیااللہ ہاشمی نے اے ایف پی کو پیغام کے ذریعے مذکورہ حکم کی تصدیق کی اور خط بھی ٹوئٹ کیا۔
افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی سے عالمی برادری کی تشویش کو تقویت ملی ہے جبکہ طالبان حکومت کو تاحال کسی عالمی طاقت نے تسلیم نہیں کیا۔
امریکا سمیت غیرملکی حکومتیں پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ طالبان کو خواتین کی تعلیم پر اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی ہوگی جو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے قبل اس طرح کے اقدامات ضروری ہیں۔
طالبان کی حکومت پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد ہیں۔
افغانستان میں جامعات میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ایک ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب تین ماہ قبل ہی ہزاروں لڑکیوں اور خواتین نے ملک بھر میں داخلے کے امتحانات میں شرکت کی تھی۔
داخلے کے امتحانات میں شریک ہونے والی خواتین نے انجینئرنگ اور طب سمیت مستقبل میں دیگر شعبوں میں کیریئر بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
یاد رہے کہ طالبان نے گزشتہ برس اگست میں ملک کی حکومت سنبھالنے کے بعد جامعات پر نئی قوانین نافذ کر دیے تھے، جس میں خواتین اور مردوں کے کمرہ جماعت الگ کرنے اور لڑکیوں کے لیے خواتین اساتذہ یا بڑی عمر کے مرد اساتذہ کو پڑھانے کی اجازت شامل تھی۔
اس سے قبل لڑکیوں کی سیکنڈری اسکول تعلیم پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی، جس پر دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور طالبان حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ بچیوں کی تعلیم بحال کی جائے۔