ملک میں مہنگائی پہلے ہی عروج پر ہے اور ایسے میں حکام اور ملرز کی جانب سے دودھ اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے سے غریب صارفین کو ایک خوفناک دھچکا لگا ہے۔
کمشنر کراچی کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق فی لیٹر دودھ کی قیمت 170 روپے سے بڑھا کر 180 روپے کردی گئی ہے۔
دوسری جانب فلور ملز مالکان نے آٹے کے نرخ 96 روپے فی کلو سے بڑھا کر 104 روپے فی کلو کردیے جبکہ فائن آٹا اور سوپر آٹے کے نرخ 105 روپے فی کلو سے بڑھا کر 108 روپے فی کلو مقرر کر دیے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈیری فارمرز اور ہول سیلرز نے فی لیٹر دودھ کی قیمتیں 153 اور 160 روپے سے بڑھا کربالترتیب 163 روپے اور 170 روپے مقرر کردیے ہیں۔
کراچی ریٹیلر ایسوسی ایشن کے میڈیا کوآرڈینیٹر وحید گڈی نے دودھ کی قیمتوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کمشنر کو بار بار یاد دہانی کروائی ہے کہ ہول سیلرز کبھی بھی سرکاری ریٹ پر دودھ فروخت نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں ریٹیلرز سرکاری ریٹ سے زیادہ دودھ فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں اجلاس کے دوران کراچی دودھ ریٹیلر ایسوسی ایشن نے احتجاجاً نوٹی فکیشن پر دستخط نہیں کیے تھے۔
ڈیری اور کیٹل فارمر ایسوسی ایشن کے صدر شاکر گجر نے کہا کہ نوٹی فکیشن، مارکیٹ کی اصل صورتحال کے بالکل برعکس تھا کیونکہ مارکیٹ میں فی لیٹر دودھ کی قیمت 200 روپے جبکہ ڈیری فارم میں فی لیٹر دودھ کی قیمت 163 روپے مقرر ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کمشنر کو دودھ کی قیمتوں میں نظرثانی کرنی چاہیے اور فی لیٹر دودھ کی قیمت فریٹ ریٹس، مڈل مین اور ریٹیلرز کے منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے 230 روپے فی لیٹر مقرر کی جائے۔
ٹیٹرا مِلک پیک کے ایک معروف مینوفیکچر نے بتایا کہ ریٹیلرز کو بتا دیا گیا ہے کہ 15 دسمبر 2022 سے فی لیٹر دودھ کی قیمت 20 روپے اضافے سے 240 روپے ہوگی جبکہ 1.5 لیٹر دودھ کے پیکٹ کی قیمت 310 روپے کے بجائے 335 روپے ہوگی۔
ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ فرائس لینڈ کیمپینا اینگرو پاکستان کی جانب سے قیمتوں میں کئی گنا اضافے کے بعد دیگر کمپنیاں بھی دودھ کے نرخ میں اضافہ کرسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیاں کبھی بھی نرخوں میں اضافے کی وجوہات کو ظاہر نہیں کرتیں کیونکہ وہ عام طور پیداواری لاگت میں اضافے کو اصل وجہ قرار دیتی ہیں۔
آٹے کی قیمتوں میں اضافہ
اس سے قبل نومبر میں فلور ملز نے فی کلو آٹے کی قیمت 110 روپے سے کم کر96 روپے کردی تھی اور فائن اور سوپر فائن آٹے کی قیمت 125 فی کلو سے کم ہوکر 105 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
قیمتوں میں کمی کا فیصلہ اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخون میں کمی کی وجہ سے ہوا تھا۔
قیمتوں میں کمی کا فیصلہ فلور ملز مالکان کو گندم کی فراہمی شروع ہونے کے بعد اوپن مارکیٹ میں فی 100 کلوگرام گندم کے تھیلے کی قیمت 9 ہزار 400 روپے کم کرکے 8 ہزار 300 روپے تک پہنچنے کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
سندھ حکومت نے آٹے کی قیمت 65 روپے فی کلو مقرر کی تھی۔
ملز مالکان سبسڈائڈز گندم کا 100 کلو گرام تھیلا 5 ہزار 825 روپے میں خریدتے ہیں۔
تاہم حال ہی میں فلور ملز مالکان نے آٹے کے نرخ 96 روپے فی کلو سے بڑھا کر 104 روپے فی کلو کردیے جبکہ فائن آٹا اور سوپر آٹے کے نرخ میں 105 روپے فی کلو سے بڑھا کر 108 روپے فی کلو مقرر کر دیے ہیں۔
حالیہ اضافہ گندم کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا تھا جس کے 100 کلو گرام کا تھیلا 8 ہزار 600 روپے سے بڑھ کر 9 ہزار 200 روپے یا 9 ہزار 300 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے) سندھ زون کے چیئرمین عامر عبداللہ نے کہا کہ ہر مِل کو ماہانہ 10 ہزار گندم کے تھیلوں کا کوٹہ مل رہا ہے جو اکتوبر میں مقرر کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ موسم سرما میں آٹے کی زیادہ کھپت کی وجہ سے ملز کو اب زیادہ گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آٹے کی پیداوار کے لیے ملز حکام، حکومت سندھ کا 35 فیصد گندم استعمال کر رہے ہیں جبکہ باقی گندم اوپن مارکیٹ سے زیادہ نرخوں پر اٹھا رہے ہیں۔
عامر عبداللہ نے مزید کہا کہ قیمتوں میں اضافے کے باوجود پنجاب میں آٹے کی قیمتیں کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت 5 لاکھ ٹن گندم سندھ حکومت کو آفر کر رہی ہے لیکن صوبائی حکومت 2 یا ڈھائی لاکھ ٹن گندم لینے پر غور کر رہی ہے۔
پاکستان نے طلب اور رسد کے فرق کو کم کرنے کے لیے مہنگی گندم درآمد کی ہے۔
سال 2022 میں جولائی سے اکتوبر تک مجموعی طور پر گندم کی درآمد ساڑھے 23 کروڑ ڈالر مالیت سے 7 لاکھ 31 ہزار 751 ٹن کے مقابلے 11 لاکھ ٹن رہی جس کی مالیت 46 کروڑ ڈالر رہی۔
مالی سال 2023 کے پہلے چار ماہ میں گندم کی فی ٹن اوسط قیمت میں 41 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 32 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھی۔
پاکستان ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے سال اکتوبر 2022 سے جولائی 2020 تک 64 لاکھ 66 ہزار ٹن درآمد کرنے کے لیے 2 ارب 24 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔
8 دسمبر کو سندھ کے وزیر خوراک مکیش کمار چاولہ کاکہنا ہے کہ سندھ حکومت کے پاس 75 لاکھ ٹن گندم کاذخیرہ موجود ہے اور مارچ 2023 تک عوام کو رعایتی نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
سندھ حکومت نے رواں سیزن میں 14 لاکھ ٹن گندم کی حصولی کا ہدف مقرر کیا تھا جس میں سے 10 لاکھ ٹن گندم مقامی کسانوں اور 4 لاکھ ٹن پاسکو سے خریدی تھی، اس 4 لاکھ ٹن میں سے2 لاکھ ٹن کی ترسیل ہوچکی ہے اور بقیہ 2 لاکھ ٹن کی ترسیل 20 دسمبر تک ہوجائے گی۔
وزیر خوراک سندھ مکیشن چاؤلہ نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں گندم کی فصل کی تباہی کا خطرہ ہے لیکن شکر ہے کہ گندم کا بڑا ذخیرہ محفوظ رہا ہے اور صرف معمولی نقصان کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ خوراک کی ٹیموں نے مختلف علاقوں میں گوداموں کو چیک کیا ہے اور تباہ شدہ گندم کو الگ کرلیا ہے۔