سائیکلنگ کے منفرد ریکارڈ اپنے نام کرنے والی پاکستانی خاتون ایتھلیٹ ثمر خان کا کہنا ہے کہ سائیکل ریلی کا مقصد پشتون لڑکیوں کو بااختیار بنانا ہے، میں چاہتی ہوں کہ قبائلی لڑکیاں عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان کا سر فخر سے بلند کروں۔
اس سے قبل 11 دسمبر کو جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے سائیکل ریلی کے خلاف لنڈی کوتل بازار میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا، اس موقع پر سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے سائیکل ریس کو فحاشی اور مقامی روایات کے منافی قرار دیا تھا۔
ان جماعتوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے اور خواتین کو اسلامی احکامات پر عمل کرنا ہوگا اور انہیں ایسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔
سائیکلنگ کے منفرد ریکارڈ اپنے نام کرنے والی پاکستانی خاتون ایتھلیٹ ثمر خان نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کے ایونٹ گزشتہ 5 سے 6 سالوں سے اسپورٹس کلب کے تحت کرواتی رہتی ہیں۔
انہوں نے مختلف شہروں میں ایک دن کی ٹریننگ اور کیمپوں سمیت مختلف ایونٹس کے انعقاد کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’میری ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ میں اپنے آبائی علاقے میں سائیکلنگ کیمپ کا انعقاد کروں کیونکہ میرا تعلق خیبرپختونخوا کے علاقے لوئر دیر سے ہے‘۔
ایڈونچر ایتھلیٹ نے مزید کہا کہ ’ہمارے لیے ہمیشہ سے سماجی رکاوٹ ایک چیلنج رہا ہے لیکن خوش قسمتی سے میں ایک لڑکی سے ملی جس کا تعلق لنڈی کوتل سے تھا جو ایک فری لانس جرنلسٹ بھی ہے، وہ میری بہت اچھی دوست ہے، اس نے لڑکیوں سے ملاقاتوں کے سلسلے میں تعاون کیا اور لوگوں کا اعتماد حاصل کیا تاکہ لنڈی کوتل میں ابتدائی طور پر پہلے مرحلے میں 15 لڑکیوں کے لیے کیمپ لگایا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد پشتون لڑکیوں کو خود مختار بنانا ہے کیونکہ جب ہم عالمی پلیٹ فارم پر جاتے ہیں تو وہاں پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا سے کوئی نمائندہ نہیں ہوتا، اس لیے ہمارا مشن پشتون خواتین کو ترقی کے سفر میں آگے لے کر چلنا ہے، انہیں آگاہی دینا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کے مختلف مواقع فراہم کرنا ہےکیونکہ میں خود کھیل کے شعبے میں مہارت رکھتی ہوں‘۔
سائیکلنگ کیمپ کے بعد قتل کی دھمکیاں ملنے کے حوالے سے ثمر خان نے بتایا کہ سائیکلنگ کیمپ کے بعد نتائج اور مشکلات کے حوالے سے ہمیں معلوم تھا، ہمیں معلوم تھا کہ لڑکیوں کو ایسے مواقع فراہم کرنے کے بعد کس طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن ہمیں لڑکیوں کا اعتماد حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ان تمام لڑکیوں کے اہل خانہ بہت پُرجوش تھے، ہم نے سائیکلنگ کیمپ ایک تجربے کے طور پر لیا تھا۔‘
ثمر خان نے کہا کہ ’ہماری حکمت عملی یہ تھی ہم اپنے اقدام کی پہلے سے تشہیر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہمارا مقصد تھا کہ ہم اسے پُرامن طریقے سے کامیابی کے ساتھ مکمل کریں اور جب ہم نے سائیکل ریلی کامیابی سے مکمل کرلی تو ہم نے اس کی پروموشن/تشہیر کی کیونکہ جب آپ پُرامن طریقے سے بغیر کسی تشہیر کے ساتھ اپنا کام مکمل کرلیتے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔‘
پاکستانی خاتون ایتھلیٹ نے کیمپ میں حصہ لینے والی لڑکیوں کے جذبے کے حوالے سے بتایا کہ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ جو لوگ بڑی عمر کی لڑکیاں نہیں بلکہ ان کی عمر 10 سال، 17 یا 18 سال کے درمیان ہے تو ان میں سے بہت ساری نوجوان لڑکیاں اور چھوٹی بچیاں ہیں اور یہ لڑکیاں اتنی ہی پُرجوش تھی جیسے کسی بھی علاقے میں کوئی شخص اپنی پہلی بائیک خرید کر خوش ہوتا ہے۔’
انہوں نے بتایا کہ ’ان لڑکیوں نے اپنی زندگی میں کبھی سائیکل یا اس جیسی کسی چیز کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا، اس لیے سائیکل پر توازن برقرار رکھنے کے لیے انہیں ایک یا 2 دن لگے تھے، ان لڑکیوں میں بہت زیادہ جذبہ، جوش اور حوصلہ تھا، سائیکل سیکھنے کے دوران وہ نیچے بھی گِریں، تھوڑی مشکل ہوئی لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی اور محدود وسائل اور وقت کے باوجود انہوں نے کم وقت میں سائیکل سیکھ لی تھی۔‘
ثمر نے کہا کہ ’ہمارے پاس وہاں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں ہم گروپ کی شکل میں ایک کامیاب سائیکل ریلی کا انعقاد کرتے لیکن قبرستان کے قریب ایک ایسی جگہ ڈھونڈنے میں کامیاب رہے، اتوار کو ہفتہ وار چھٹی کے موقع پر لڑکوں کی موجودگی کے پیش نظر مجمع سے بچنے کے لیے صبح سویرے اس علاقے میں پہنچے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ہم مکمل طور پر محفوظ ہوں۔
مایہ ناز ایتھلیٹ نے ڈان نیوز سے گفتگو میں مزید کہا کہ ہمارے پاس ہیلمٹ اور حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہم پر اس طرح کے کیمپوں کے انعقاد کی کتنی بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکتے ہیں، ان لڑکیوں کو سائیکل کی فراہمی، تربیت اور مواقع دینے کی ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے تاکہ ہم مستقبل میں بہترین خواتین بن سکیں۔’
انہوں نے بتایا کہ ’ان خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دینا ضروری ہے کیونکہ کئی لڑکیوں کو اپنے حقوق کے بارے میں معلوم ہی نہیں، اسی لیے ان کے گھروں میں موجود مردوں کے لیے ان کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سائیکلنگ کیمپ کے بعد کئی لوگوں نے اسے اپنے سیاسی ایجنڈے اور اپنے مقاصد اور شہرت کے حصول کے لیے استعمال کیا‘۔
ثمر خان نے کہا کہ ’وہ لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے بھی بول رہے تھے، مثال کے طور پر کئی لوگ اعلان کر رہے تھے کہ سائیکل سیکھنا ان کی ترجیح نہیں ہونی چاہیے، قبائلی ضلع میں ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں تعلیم، مدد، بنیادی سہولیات اور انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے اور خواتین گھر میں چار دیواری تک محدود رہ کر کڑھائی سلائی اور کھانا پکا کر کما سکتی ہیں‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کیمپ کی لڑکیاں کبھی یہ سب نہیں چاہتی، وہ کھیل میں حصہ لینا اور باہر نکلنا چاہتی ہیں‘۔
لوئر دیر کی بہادر ایتھلیٹ نے مزید بتایا کہ ’جب انہوں نے میرے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل کیں تو انہیں اندازہ ہوا کہ میں سائیکلنک کے علاوہ بھی بہت کچھ کر رہی ہوں مثال کے طور پر ہائیکنگ، کانفرنس سے خطاب کرنا، مختلف ممالک کا سفر کرنا، اسنوبورڈنگ وغیرہ اور میری طرح یہ لڑکیاں بھی یہ مواقع حاصل کرنا چاہتی ہیں‘۔
پاکستانی خاتون ایتھلیٹ نے خواتین کو باختیار کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسی لیے ان لڑکیوں اور خواتین کو جب اپنے حقوق کے بارے میں معلوم ہوگا تب ہی وہ اپنے لیے آواز اٹھا سکتی ہیں اور وہ ایسی بہادر خواتین میں شمار ہوسکتی ہیں جن کی آج کے دور میں ضرورت ہے