(ویب ڈیسک): 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی غزہ جنگ کو آج ایک سال مکمل ہوگیا۔ گزشتہ سال 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی غزہ جنگ کو آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور اب یہ جنگ غزہ اور اسرائیلی سے نکل کر لبنان تک پھیل گئی ہے جب کہ اس جنگ کے نتیجے میں ایران، شام، عراق اور یمن پر بھی اسرائیل نے حملے کیے اور ان ممالک سےبھی اسرائیل پر حملے ہوئے۔
سالوں سے جاری اسرائیلی ظلم وستم کے خلاف 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر ایک ہزار راکٹس فائر کیے اور سرحد پر قائم باڑ توڑ کر مقبوضہ فلسطین کے علاقوں پر قائم اسرائیلی آبادیوں اور فوجیوں پر حملہ کیا جس کے نیتجے میں ایک ہزار سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے اور سیکڑوں اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا کر غزہ لایا گیا۔
7 اکتوبر کے حملوں کو جواز بنا کر اسرائیل نے اگلے دن ہی غزہ کے شہریوں پر بدترین فضائی بمباری کا آغاز کیا اور ساتھ ہی کچھ دن بعد زمینی کارروائی بھی شروع کردی جو آج کے دن تک بدستور جاری ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 42 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 16 ہزار بچے اور 11 ہزار خواتین شامل ہیں جب کہ ایک لاکھ سے زائد فلسطینی زخمی ہیں، غزہ میں قائم تقریباً تمام ہی انفرا اسٹرکچر کو اسرائیل نے تباہ کردیا ہے۔
غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں نے جنگ بندی کی کئی کوششیں کیں مگر سب رائیگاں رہیں اور اسرائیل حماس کے وجود کو ختم کیے بغیر مستقل جنگ بندی پر راضی نہیں ہوا۔
نومبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد 4 روزہ جنگ بندی پر دونوں فریقین نے عالمی ثالثوں کی موجودگی میں اتفاق کیا اور اس دوران دونوں اطراف سے قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا گیا مگر بعد ازاں جنگ دوبارہ شروع ہوگئی۔
بعد ازاں امریکی صدر جوبائیڈن اور دیگر ممالک کی جانب سے جنگ بندی کی کئی کوششیں کی گئیں اور ایک موقع پر اسرائیل اور حماس دونوں امریکی صدر کی پیش کی گئی جنگ بندی تجاویز اور اس کے نکات پر آمادہ بھی ہوئے مگر اسرائیل کے پیچھے ہٹ جانے اور مستقل جنگ بندی نہ کرنے کے باعث معاہدہ نہ ہوسکا۔
الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ امریکا نے گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک اسرائیل کو فوجی امداد کی مد میں 17 ارب ڈالر کی امداد دی جو اسرائیلی دفاعی نظام آئرن ڈوم کو فعال رکھنے،جہازوں کے لیے تیل خریدنے سمیت دیگر ہتھیار خریدنے میں استعمال کیے گئے۔
ذرائع کے مطابق حزب اللہ اور ایران کے حملے روکنے اور ان کے خلاف امریکا ایران کو انٹیلی جنس معلومات بھی فراہم کرتا رہا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں شروع ہونے والی غزہ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل حملوں کے بعد حزب اللہ نے غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت کے طور پر شمالی اسرائیل پر حملوں کا آغاز کیا اور راکٹس فائر کرنا شروع کیے جس کے جواب میں اسرائیل نے بھی سرحد کے قریب واقع لبنانی علاقوں پر بمباری کا آغاز کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔
گزشتہ سال غزہ جنگ شروع ہونے سے اس سال ماہ اگست تک حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان یہ لڑائی ایک حد تک رہی مگر گزشتہ اگست میں اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سینئر کماندڑ فواد شکر کے قتل کے بعد لڑائی نے ایک نیا موڑ اختیار کیا اور دونوں جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا جو وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔
ستمبر کے آغاز میں اسرائیل نے کہا کہ وہ ہر صورت اپنے شمالی علاقوں میں لوگوں کو واپس لائے گا اور حزب اللہ کے حملوں کو روکے گا جس کے بعد گزشتہ چند دنوں سے اسرائیل نے لبنان کے مختلف شہروں پر مسلسل بمباری کا آغاز کردیا اور حزب اللہ نے بھی جوابی راکٹ اور میزائل فائر کیے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اسرائیل حزب اللہ سیکرٹری جنرل اور سربراہ حسن نصراللہ سمیت بہت سے سینئر کمانڈرز جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ہزاروں لبنانی شہری ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔
اسرائیل ایران پر حماس اور حزب اللہ کی پشت پناہی کا الزام لگاتا ہے اور اسی سوچ کے تحت اسرائیل نے اس سال اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں قائم ایرانی کونسل خانے کی عمارت پر فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو سینئر کمانڈرز سمیت 7 اہلکار ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد ایران نے اسرائیل پر تقریباً 300 میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور ایرانی ردعمل
حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کو 31 جولائی کو تہران میں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے ایران کے دارالحکومت تہران میں موجود تھے۔
اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی باقاعدہ ذمہ داری قبول نہیں کی مگر ایران نے اس کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹہراتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا اور تقریباً 2 ماہ بعد یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل پر 300 راکٹوں اور میزائلوں سے حملہ کیا اور یہ حملہ ایران کے پچھلے جوابی حملے سے زیادہ سخت اور نسبتاً اچھے ہتھیاروں سے کیا گیا جس میں اسرائیل کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں نقصان پہنچے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔
جنگ کا ایک سال مکمل ہونے پر اب تک غزہ کے 20 لاکھ فلسطینی بے گھر ہیں جب کہ اسرائیل کے شمالی علاقوں میں میں رہنے والے تقریباً 2 لاکھ کے قریب اسرائیلی بھی یا تو بے گھر ہیں اور گھروں میں محصور ہیں۔
اسرائیل گزشتہ ایک سال کے دوران ہزاروں ٹن بم برسانے اور ہزاروں فوجیوں کے ساتھ زمینی کارروائی کرنے کے باوجود غزہ سے حماس کا وجود ختم نہیں کرسکا اور اسے آج بھی غزہ میں مزاحمت کا سامنے ہے۔
غزہ جنگ اب لبنان سے آگے شام، عراق تک پہنچ چکی ہے جب کہ ایرانی حملوں کے بعد ممکنہ اسرائیلی ردعمل کے بعد اس جنگ کے مزید پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔