نیو یارک (ویب ڈیسک): امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ لبنان میں حزب اللہ ارکان کے زیر استعمال دھماکے سے تباہ ہونے والے ہزاروں پیجر اسرائیلی فرنٹ کمپنی بی اے سی کنسلٹنگ نے فراہم کیے ، پیجر بنانے والے بھی اسرائیلی انٹیلی جنس افسر تھے۔خیال رہے کہ منگل کو لبنان میں ہونے والے پیجر دھماکوں میں لبنانی وزیر کے بیٹے سمیت 12 افراد جاں بحق اور 4 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔پیجر دھماکے میں ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی بھی زخمی ہوئے جن کے حوالے سے امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکے میں ایرانی سفیر ایک آنکھ سے محروم ہو گئے ہیں جب کہ ان کی دوسری آنکھ بھی شدید متاثرہ ہوئی ہے تاہم ایرانی حکام نے اس قسم کی تمام اطلاعات کی تردید کی ہے۔دھماکوں کے اگلے روز بھی لبنان کے مختلف علاقوں میں واکی ٹاکی یا ریڈیو ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 20 ہوگئی ہے جب کہ 450 سے زائد زخمی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق واکی ٹاکی دھماکے بازاروں، گھروں اور منگل کو جاں بحق ہونے والے افراد کے جنازوں کے دوران بھی ہوئے۔
پیجر بنانے والی تائیوانی کمپنی نے پیجر ہنگری کی کمپنی میں بننے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ ہنگری نے تائیوان کے دعوے کی تردید کردی ہے۔
تائیوانی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے ہنگرین کمپنی کا کہنا تھا کہ لبنان میں جن ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے وہ ہنگری میں کبھی نہیں تھے، پیجر ڈیوائسز بنانے کے لیے کمپنی کا ذکر کیا گیا وہ ٹریڈنگ کمپنی ہے اس کا پیجر بنانے کا کام نہیں ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی تحقیق کے مطابق پیجر دھماکوں کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصویروں میں نظر آنے والے ایک تباہ شدہ پیجر پر ’گولڈ‘ اور ’اے پی‘ یا ’اے آر‘ کے الفاظ نمایاں نظر آتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پیجر تائیوانی کمپنی ’گولڈ اپولو‘ نے تیار کیے۔
بی بی سی نے مزید معلومات کیلئے گولڈ اپولو سے رابطہ کیا تو انہوں نے لبنان دھماکوں میں استعمال ہونے والے پیجرز بنانے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل بنانے کے بعد اسے کے حقوق ہنگری کی ’بی اے سی‘ نامی کمپنی کو فروخت کردیے گئے تھے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ گولڈ اپولو کے مطابق بی اے سی نامی ہنگرین کمپنی کو لائسنسنگ ایگریمنٹ کے تحت پیجرز کا یہ ماڈل بنانے اور اس کی برانڈنگ کی اجازت حاصل تھی۔
بی بی سی کا کہنا تھا کہ معاملے سے متعلق معلومات اور مؤقف حاصل کرنے کیلئے بی اے سی نامی کمپنی سے متعدد مرتبہ رابطہ کیا گیا تاہم وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
جبکہ کمپنی کی ویب سائٹ پر بھی رسائی بند کر دی گئی ہے، جس پر لکھا تھا کہ کمپنی ایشیا میں اپنا ٹیلی کمیونیکیشن پراڈکٹس کا کاروبار بڑھانے کیلئے کوشاں ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہنگری کے بڈاپسٹ 14th ڈسٹرکٹ کی ایک بلڈنگ میں قائم بی اے سی نامی کمپنی 2022 میں رجسٹر کی گئی اور اس کے تمام شیئرز ایک خاتون کرسٹیانا بارسونی کے نام تھے جبکہ ان ہی کے نام اسی بلڈنگ میں مزید 13 کمپنیاں بھی رجسٹرڈ تھیں۔
ریکارڈز کے مطابق کمپنی نے 2022 میں 7 لاکھ 25 ہزار ڈالرز کا ٹرن اوور ظاہر کیا تھا جبکہ 2023 میں کمپنی کا ٹرن اوور 5 لاکھ 93 ہزار ڈالرز بتایا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپنی کے مالی معاملات سے متعلق تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ڈیٹا بیس میں بی اے سی نامی ہنگرین کمپنی کے کسی اور کمپنی کے ساتھ کوئی تعلقات ظاہر نہیں ہوئے، ان کی جانب سے کسی اور کمپنی یا فرم کو شپمنٹ بھیجے جانے سے متعلق بھی کوئی ریکارڈ سامنے نہیں آیا۔
اس حوالے سے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہےکہ ہنگری میں موجود ‘مشکوک’کمپنی بی اے سی دراصل ایک اسرائیلی فرنٹ کمپنی ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے پیجر کمپنی سے تعلق چھپانے کے لیے فرنٹ کمپنیوں کا استعمال کیا۔
آپریشن سے آگاہ تین اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے امریکی اخبار کو بتایا کہ پیجر کے مینوفیکچررز کے اسرائیل سے تعلق کو چھپانے کے لیےکم از کم دو اور شیل کمپنیاں بنائی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق پیجر کی ترسیل لبنان میں 2022 میں شروع ہوئی تھی تاہم حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی جانب سے موبائل فون کو غیر محفوظ قرار دینے کے بعد سپلائی میں اضافہ کیا گیا اور ہزاروں پیجر حزب اللہ کے ارکان اور ان کے اتحادیوں میں تقسیم کیے گئے۔
اخبار کے مطابق اسے اسرائیلی انٹیلی جنس کے 12 موجودہ اور سابقہ انٹیلی جنس افسران نے بتایا کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل تھا۔ان افسران کو حملے سے قبل بریف کیا گیا تھا۔