اسلام آباد (ویب ڈیسک): جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ادارے انتخابات سے دور رہیں، کوئی مداخلت نہ کریں جبکہ ہم بصد احترام سمجھتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں یکسوئی کی کمی ہے، پی ٹی آئی قائد کی طرف سے وفود بات تو کرتے ہیں مگر ابھی تک کوئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی۔جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کا 2 روزہ اجلاس ہوا جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا۔شوریٰ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہناتھاکہ انتخابی نتائج کسی قیمت پر ہمیں قبول نہیں، انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ غیرجانبدارانہ انتخابات منعقد کیے جائیں جس سے اسٹیبلشمنٹ دور رہے۔
ان کا کہنا تھاکہ مجلس شوریٰ نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے کو سیاسی عمل قرار دیا، حکومت میں اتنا خم نہیں ہے کہ وہ ہماری شکایات کا ازالہ کرسکے، معاملہ بڑا سنجیدہ ہے، یہ مسئلہ کسی ایک سیاسی جماعت کو منانے کا نہیں بلکہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔
پی ٹی آئی سے اتحاد پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کے وفود نے بھی رابطے کیے ہیں، مجلس شوریٰ نے اس کا بھی جائزہ لیا، پی ٹی آئی کو مذاکرات میں خوش آمدید کہتے ہیں، پی ٹی آئی پر واضح کردیا تھا مناسب ماحول کا قیام ضروری ہے، ہم نے جن مثبت رویوں کا آغاز کیا ہم قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم بصد احترام سمجھتے ہیں پی ٹی آئی قیادت میں یکسوئی کی کمی ہے، پی ٹی آئی قائد کی طرف سے وفود بات تو کرتے ہیں مگر ابھی تک کوئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ کے بیانات جے یو آئی کے ساتھ نہ چلنے کی بات کررہے ہیں، پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل ابہام کو دور کریں، ہم مشترکہ اہداف اور مذاکرات سے انکار نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ فوج سمیت تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود میں جانا چاہیے، سیاست میں مداخلت آئینی خلاف ورزی ہے۔
آپریشن عزم استحکام سے متعلق سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھاکہ عزم استحکام آپریشن پر بھی ان اداروں میں یکسوئی نہیں پائی جارہی ہے، آج تک جتنے بھی آپریشنز ہوئے پھر دہشت گردی 10 گنا کیوں بڑھ گئی ہے، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آپریشن کی وضاحت کرتے ہیں عوام کس پر اعتبار کریں؟ سابق فاٹا کو ضم کرتے ہوئے 100 ارب روپے دینے کا کہا گیا مگر عمل کیا ہوا؟ ہمیں ریاستی اداروں کیخلاف زبان نہ کھولنے کا کہا جاتا ہے مگر ادارے عوام کا احساس کب کریں گے؟
ان کا مزید کہنا تھاکہ ان آپریشنز میں جوعوام کےنقصانات ہوئے آج تک ان کامعاوضہ نہیں دیا گیا، سات سال ہوگئے فاٹا کو ایک سال بھی 100 ارب نہیں دیے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ شوریٰ نے کسی باضابطہ اتحاد میں جانے کا انتظار کیے بغیر اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے، اگرسیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی تعاون کا ماحول پیدا ہوتو ہم اسے قابل عمل بنائیں گے۔
افغانستان سے متعلق وزیر دفاع کے بیان پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ آج کہا جارہا ہے افغانستان میں کارروائی کریں گے، پاکستان کے اندر دہشتگردی روکنے میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے افغانستان پرحملہ کرنا چاہتے ہو؟ کیا آپ دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہیں؟
انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے سوالات ہیں جو اٹھا کر ریاست کیلئے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے، اگر کسی کا مفاد ہے تو وہ غیرملکی مفادات کا ہے، امریکیوں کو اڈے دے کر 20 سال آپ بمباری نہیں کراتے رہے، امریکا کی نظرمیں تو امارت اسلامیہ اورحماس بھی دہشت گرد ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھاکہ چین کے ساتھ تعلقات کا دوام چاہتے ہیں، ابھی تک چین کا اعتماد سرمایہ کاری کاری کیلئے بحال نہیں ہوسکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی ایوان نمائندگان نے 8 فروری کے الیکشن کو مشکوک قرار دیا ہے، جے یو آئی کی رائے ہے امریکا پاکستان کے معاملات سے دور رہے، یہ بھی بتایا جائے کہ کیا یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں ہے؟ ریاست کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا۔