لاہور (ویب ڈیسک): لاہور میں عربی حروف تہجی والا لباس پہننے پر مشتعل ہجوم نے خاتون پر توہین مذہب کا الزام لگایا، خاتون پولیس افسر کی بروقت کارروائی نے صورتحال کو نہ صرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت نکال لیا۔واقعہ گزشتہ روز (25 فروری کو) صوبہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے کاروباری علاقے اچھرہ میں پیش آیا۔پولیس کے مطابق خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ شاپنگ کرنے گئی تھی، خاتون نے ایک لباس پہنا ہوا تھا جس میں کچھ عربی حروف تہجی لکھے ہوئے تھے جس پر لوگوں نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور خاتون سے فوری طور پر لباس کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔اس دوران اچھرہ بازار میں لوگوں کی بڑی تعداد اکٹھا ہو گئی اور مشتعل ہجوم نے خاتون کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔
ہجوم نے الزام عائد کیا تھا کہ خاتون کے لباس کے پرنٹ پر قرآنی آیات لکھی ہیں۔
اس دوران اچھرہ بازار میں لوگوں کی بڑی تعداد اکٹھا ہو گئی اور مشتعل ہجوم نے خاتون کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔
اس صورتحال میں پنجاب پولیس کی خاتون پولیس آفیسر اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی 15 ہیلپ لائن کی کال پر جائے وقوع پہنچی، ان کی جانب سے بروقت کارروائی نے صورتحال کو نہ صرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت باہر نکال لیا۔
واقعے کی سوشل میڈیا پر مشتعل ہجوم کے درمیان خاتون کی متعدد ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہورہی ہیں۔ایک ویڈیو میں خاتون کو اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے انتہائی پریشانی کے عالم میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک ویڈیو میں خاتون اے ایس پی مشتعل ہجوم کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ایک سال سے ہم آپ کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں، کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوئی، آپ لوگوں کو ہم پر بھروسہ ہونا چاہیے‘، اس کے ساتھ ہی وہ بازار میں موجود ہجوم کے درمیان سے خاتون کو نقاب اور برقعے میں بحفاظت نکالتے ہوئے بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
بعدازاں خاتون اے ایس پی کی جانب سے ویڈیو پیغام بھی جاری کیا گیا جس میں وہ پورا واقعہ بیان کرتی ہیں، اے ایس پی شہر بانو نقوی کا کہنا تھا کہ ’آج اچھرہ بازار میں ایک خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ شاپنگ کے لیے گئی اور انہوں نے ایک کرتا پہنا ہوا تھا جس پر عربی زبان کے کچھ حروف لکھے تھے جس کے بعد وہاں موجود لوگوں نے سمجھا کہ یہ کچھ مذہبی کلمات ہیں اور اس معاملے نے ایک غلط فہمی کو جنم دیا‘۔
اسی ویڈیو بیان میں ان کے ساتھ مذکورہ خاتون اور کچھ مقامی مذہبی علما بھی موجود تھے۔
ان میں سے ایک مذہبی عالم نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہم نے قمیض پر پرنٹ ہوئے حروف کو دیکھا ہے اور وہ عربی حروف ہیں لیکن وہ عام الفاظ تھے، یہ بیٹی نے کہا ہے کہ وہ آئندہ ایسا لباس نہیں پہنے گی جس کے بعد انہیں معاف کر دیا گیا ہے۔‘
متاثرہ خاتون نے بھی اس ویڈیو بیان میں کہا کہ ’میں اچھرہ بازار شاپنگ کے لیے گئی تھی اور میں نے جو کرتا پہنا تھا وہ ڈیزائن سمجھ کر لیا تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس پر ایسے الفاظ لکھیں ہیں جنہیں لوگ عربی سمجھیں گے، میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی، یہ جو کچھ بھی ہوا یہ لاعلمی میں ہوا، ؛لیکن میں پھر بھی معافی مانگتی ہوں، میں مسلمان ہوں اور کبھی توہین مذہب یا توہین رسالت کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی، دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔‘
واقع پر علامہ طاہر اشرفی نے اپنے ویڈیو بیان میں اس واقع کی مذمت کرتے ہوئے خاتون کو بے قصور قرار دیتے ہوئے کہا کہ معافی متاثرہ خاتون کو نہیں بلکہ ہراسان کرنیوالے لوگوں کو مانگنی چاہیے جو اس طرح کی حرکتوں سے شریعت اور دین اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں.
ایک خاتون کو غلط فہمی کی بنا پر مشتعل ہجوم کے درمیان سے بہادری سے نکالنے پر پنجاب پولیس نے ایس ڈی پی او گلبرگ شہربانو نقوی کے لیے سرکاری اعزاز قائد اعظم پولیس میڈل کی سفارش کردی۔
سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جارہا ہے خاتون نے جس برینڈ سے لباس خریدا وہ @semplicitakw نامی کویت کی کمپنی ہے، تاہم اسی کمپنی کی جانب سے انسٹاگرام اسٹوری کے ذریعے وضاحت کی گئی کہ ان کا لاہور میں ہونے والے واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بیان میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی شہریوں، ہمارا مذکورہ خاتون کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہماری کمپنی کویت میں ہے اور ہم دنیا بھر میں اپنے آرڈرز ڈیلیور نہیں کرتے، برائے مہربانی ہمیں میسجز بھیجنا بند کریں۔‘
بیان میں مزید وضاحت کی گئی کہ ’ہم عربی حروف اور الفاظ مختلف طریقوں سے متعلق استعمال کرتے ہیں چونکہ یہ ہماری زبان ہے‘۔