کراچی (ویب ڈیسک): مولانا فضل الرحمان کوعمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے متعلق بیان’عمران حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد جنرل باجوہ کےکہنے پرلائی گئی’، اُن کو مہنگا پڑگیا اور سب پرانے اتحادیوں کی جانب سے بیان پر نکتہ چینی کے بعد اُنہیں وضاحتیں دینی پڑگئی ہیں . انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز فیض حمید کا نام غلطی سے زبان پر آگیا. بلوچستان نیشنل پارٹی( بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کا جنرل(ر) باجوہ نے نہیں کہا تھا، وہ تو بانی پی ٹی آئی کو اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات پر راضی کرچکے تھے۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا آمرانہ رویہ تحریک عدم اعتماد کا باعث بنا، عدم اعتماد لانے کا جنرل باجوہ نے نہیں کہا، وہ تو بانی پی ٹی آئی کو اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات پر راضی کرچکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے آمرانہ رویے نے ساری جماعتوں کو اکٹھا کردیا۔ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے متفقہ کیا۔
سردار اخترمینگل کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل فیض کور کمانڈر پشاور تھے،ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ فضل الرحمان کی میزبانی میں سندھ ہاؤس میں ہوئی افطاری کے بعد سب ایک میس گئے، جہاں جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ملاقات میں آصف زرداری ،خالد مقبول صدیقی،خالد مگسی اور بلاول بھٹو زرداری بھی تھے ۔
اس کے علاوہ جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی نے کہاکہ تحریک انصاف کی حکومت آئینی طریقے سے ہٹائی گئی ۔ پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز نجی ٹی وی کو دیےگئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید رابطے میں تھے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ فیض حمید ان کے پاس آئے اور کہا جو کرنا ہے سسٹم کے اندر رہ کر کریں، جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور فیض حمیدکےکہنے پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مہر لگائی، میں خود عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا۔