اسلام آباد (ویب ڈیسک): چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ مخالف کوئی نہ ہو ووٹ پھر بھی ڈالنے تو ہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر جب پہنچے تو کاغذات نامزدگی کا وقت ختم ہو چکا تھا، اکبر ایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا، اگر ان کے پاس پینل ہوتا تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ الیکشن میں ایک شخص نے بھی ووٹ نہیں ڈالا۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی مقابلے میں آیا ہی نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ تو ڈکٹیٹرشپ ہوئی نا پھر، اگر آپ نے پینل بنا لیا اور گوہر خان نے بھی پینل بنا لیا اور آپس میں بانٹ لیے تو یہ جمہوریت تو نہ ہوئی، مخالف کوئی نہ ہو ووٹ پھر بھی ڈالنے تو ہیں، اگر آپ کو سینیٹ کے لیے ایک ووٹ نہ پڑے تو آپ سینیٹر نہیں بن سکتے، عام انتخابات میں بھی کم از کم ووٹ کی حد ہوتی ہے۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ میں میں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر بلا مقابلہ سینیٹر بنا تھا، اگر آپ کی بات دیکھی جائے تو میں بھی سینیٹر نہ بنتا۔
علی ظفر نے مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے، اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کرینگے۔