اسلام آباد (ویب ڈیسک): سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔سابق صدرپرویز مشرف سے متعلق کیسز کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ بھی بینچ میں شامل ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ پرویزمشرف نے سزا کےخلاف اپیل دائرکر رکھی ہے جو کرمنل اپیل ہے، ہماری درخواست لاہور ہائیکورٹ کے سزا کالعدم کرنے کے خلاف ہے جو آئینی معاملہ ہے، دونوں اپیلوں کو الگ الگ کرکے سنا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا موجودہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار اور اپیل دو الگ معاملات ہیں، پہلے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدرکو سن لیتے ہیں۔
دوران سماعت وفاقی حکومت نے پرویزمشرف کی سزا کےخلاف اپیل کی مخالفت کی، جس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے استفسار کیا آپ پرویزمشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں یا حمایت؟ اٹارنی جنرل نے بتایا پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں۔
یاد رہے 17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمے میں آرٹیکل 6 کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت دینےکا حکم سنایا تھا۔
پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے خصوصی عدالت کی سزا کے خلاف اپیل پر دلائل دینا شروع کیے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے پرویز مشرف کے ورثا کی عدم موجودگی میں تو ان کے وکیل کونہیں سن سکتے، مفروضوں کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہونے چاہئیں، ورثا کے حق کے لیے کوئی دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے، عدالت 561 اے کا سہارا کیسے لے سکتی ہے؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا اس عدالت کے اقدام کو سراہتا ہوں لیکن پرویز مشرف کے ورثا پاکستان میں مقیم نہیں ہیں، 5 فروری 2023 کو پرویز مشرف کا انتقال ہو گیا تھا، پرویز مشرف کے اہلخانہ کو اپیل سماعت کے لیے متعدد پیغامات بھیجے لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے وکیل سلمان صفدر سے سوال کیا آپ کے لاہور ہائیکورٹ پر تحفظات کیا ہیں؟ جس پر سلمان صفدر کا کہنا تھا لاہورہائیکورٹ میں مشرف ٹرائل والے جج کے سامنے سپریم کورٹ میں بھی پیش نہیں ہوتا، اس بارے میں آپ کے چیمبر میں کچھ گزارشات ضرور کروں گا، چیف جسٹس نے کہا ہم کسی کو چیمبرمیں نہیں بلاتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آرٹیکل 12 کے تحت مشرف کے ساتھ ملوث تمام افراد کے خلاف عدالتی دروازے تو کھلے ہیں، جس پر وکیل سلمان صفدر بولے ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف تنہا ملوث نہیں تھے، اس وقت کے وزیراعظم، وزیر قانون، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ججزبھی ملوث تھے، پرویز مشرف کو سنے بغیر خصوصی عدالت نے سزا دی، ایک شخص کوپورے ملک کے ساتھ ہوئے اقدام پر الگ کرکے سزا دی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر 1999 کی ایمرجنسی کی تحقیقات ہوتیں تو 3 نومبرکا اقدام نہ ہوتا۔
سپریم کورٹ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ عدم پیروی پر برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کے ورثا نے متعدد نوٹسز پر بھی کیس کی پیروی نہیں کی، پرویزمشرف کی اپیل مسترد کی جاتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو 17 دسمبر 2019 کو سزا سنائی، پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں اپیل نمبر 785 دائرکی، پرویز مشرف کی جانب سے 16 جنوری 2020 کو اپیل دائر ہوئی، سلمان صفدر نے بتایا کہ مشرف 5 فروری 2023 کو انتقال کر گئے، یہ اپیل 10 نومبر 2023 میں سماعت کیلئے مقرر ہوئی،عدالت نے مشرف کے قانونی ورثا کو پاکستان اور بیرون ملک دستیاب ایڈریسز پر نوٹسز جاری کیے، سپریم کورٹ نے اخبارات میں بھی نوٹسز بھی شائع کرائے۔
سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا خصوصی عدالت کوکالعدم قرار دینے کا فیصلہ قانون کے منافی تھا۔
خصوصی عدالت نے پرویزمشرف کو 3 نومبر2007کے اقدام پردو ایک سے سزائے موت سنائی تھی، لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ نےخصوصی عدالت کے قیام کوغیرقانونی قرار دے کر سزا ختم کر دی تھی، خصوصی عدالت کا قیام کالعدم قرار دینے کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کےجسٹس مظاہر نقوی نے تحریر کیا تھا۔
یاد رہے کہ آخری سماعت پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے تھے کہ لاہور ہائیکورٹ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں وہ ریلیف دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا۔
جبکہ 21 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ میری ذاتی رائے میں پرویز مشرف کی سزا والا فیصلہ موجود ہے معطل نہیں ہوا۔