اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات آئندہ سال 11 فروری کو ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو 90 دن کے اندر انتخابات کرانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت دوبارہ شروع کی۔
تاہم الیکشن کی تاریخ دینے کے صدر کے حق پر طویل بحث کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انتخابات 11 فروری کو ہونے ہیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ حلقہ بندیوں کے اعلان کے 54 دن بعد قواعد کے تحت انتخابات کی اجازت دی گئی، انہوں نے مزید کہا کہ حلقہ بندیاں 5 دسمبر کو مکمل ہوجائیں گی۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے پر صدر مملکت عارف علوی سے مشاورت کرے، تاہم الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ کمیشن ایسا کرنے کا پابند نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ سماعت دوبارہ شروع ہونے پر 2 بج کر 15 منٹ تک صدر مملکت سے مشاورت کی جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کی تاریخ جمع کروانے کے بعد اس کا تعین کیا جائے گا اور عدالت اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
90 دن کے اندر انتخابات کے لئے دائر متعدد درخواستوں پر ایک ساتھ سماعت کی جارہی ہے، درخواست گزاروں میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہے۔
اس کیس کی آخری سماعت 23 اکتوبر کو ہوئی تھی جہاں بنچ نے حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نوٹس جاری کیے تھے۔
سماعت کا آغاز پی ٹی آئی کی جانب سے علی ظفر کی جانب سے اپنے دلائل پیش کرنے سے ہوا، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے دلائل ایک واحد نکتے پر مبنی ہوں گے۔
ظفر نے کہا کہ 90 دن کے اندر انتخابات کا معاملہ غیر موثر ہو چکا ہے لہذا پی ٹی آئی صرف یہ چاہتی ہے کہ اب انتخابات کا اعلان کیا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت وزیراعظم سے مشاورت کے بعد ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتے ہیں جس پر ظفر نے نفی میں جواب دیا۔
ظفر نے دلیل دی کہ صدر عارف علوی پہلے ہی الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں، انہوں نے عدالت میں صدر کا خط بھی بلند آواز سے پڑھ کر سنایا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ صدر مملکت کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت عدالت سے رائے مانگ رہے ہیں؟