اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
حکومت کی جانب سے جمعہ کے روز فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو 2017 میں دھرنے کے انتظام اور اس سے نمٹنے میں تمام ‘متعلقہ’ عہدیداروں کے ‘کردار اور ہدایات’ کی تحقیقات کرے گی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ جاننا چاہتی ہے کہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے کون ہے۔
انہوں نے 6 فروری 2019 کو فیض آباد دھرنے کے اجراء کے بعد سے اس پر عمل درآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت بدھ کو دوبارہ شروع کی جس میں حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین کی جانب سے نئے جوابات جمع کرائے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ بنچ نے اس معاملے سے متاثر ہونے والے کسی بھی شخص کو ٢٧ اکتوبر تک جواب داخل کرنے کی اجازت دی تھی۔
پی ٹی آئی، انٹیلی جنس بیورو، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، ایم کیو ایم، سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور الیکشن کمیشن سمیت دیگر کی جانب سے 2019 میں جاری کیے گئے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
تاہم کئی درخواست گزاروں نے اپنی درخواستیں واپس لینے کی درخواست کی تھی کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ معاملہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں عدالت کو بتایا کہ دھرنے کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
حکومتی جواب میں درج کمیٹی کی شرائط میں متعلقہ دستاویزات جمع کرنا، گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنا، متعلقہ قوانین کے تحت اس معاملے تک رسائی حاصل کرنا شامل ہے جس میں دھرنے کے انتظام و انصرام میں شامل تمام افراد کے کردار کا تعین شامل ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان کو ریاست مخالف سرگرمیوں اور مالی بے ضابطگیوں سے بری کرنے کا جواب بھی جمع کرا دیا ہے۔
دھرنے کے وقت پیمرا کے سربراہ ابصار عالم نے منگل کو عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اس وقت کے جاسوس جنرل فیض حمید کے دباؤ میں تھے اور انہوں نے اس معاملے پر اس وقت کے وزیر اعظم اور آرمی چیف سے شکایت کی تھی۔