اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے فاروق ایچ نائیک کی جانب سے نیب ترمیمی کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے تک سماعت ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے یہ ہدایات سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے 15 ستمبر کے فیصلے کے خلاف پہلی انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی اے) کی سماعت کے دوران جاری کیں۔
پانچ رکنی بنچ نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 پر فل کورٹ کے 11 اکتوبر کے مختصر فیصلے کے مطابق اپیل کی سماعت کی جس کا مقصد سپریم کورٹ کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کے نام پر چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل لارجر بینچ نے 2 آئی سی اے کی سماعت کی۔
26 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے ایک سرکلر جاری کیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواستوں پر کیے گئے فیصلوں کے خلاف عدالت میں دائر کی گئی کسی بھی اپیل کو آئی سی اے کی شکل میں منتقل کیا جانا چاہئے۔
رجسٹرار آفس کی جانب سے جاری سرکلر میں وضاحت کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کی دفعہ 5 میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اس عدالت کے ذریعے جاری کردہ حکم کے خلاف اپیل اس عدالت کے سامنے ہوگی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے وکیل کی عدم دستیابی کے باعث سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔
ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزاد کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کو 3 نومبر تک کے لیے جنرل التوا دیا گیا اور وہ پیرس چلے گئے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان وفاقی حکومت کے وکیل کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ فاروق ایچ نائیک صدیقی کے وکیل کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔
وفاقی حکومت نے اپنی اپیل میں سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ 15 ستمبر کے اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے جس میں قومی احتساب بیورو (این اے او) میں ترامیم کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
سینئر وکیل مخدوم علی خان سے رجوع کرتے ہوئے حکومت نے موقف اختیار کیا کہ اکثریتی فیصلہ کیس کے حقائق کے منافی اور قانون کے منافی ہے۔
15 ستمبر کو سپریم کورٹ نے دو کے مقابلے میں ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا کہ این اے او میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم سے فائدہ اٹھانے والے عوامی نمائندوں کو دوبارہ کرپشن ریفرنسز کا سامنا کرنا پڑے گا۔