اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن کی 90 دن کی ڈیڈ لائن پوری کرنا ممکن نہیں۔
چیف جسٹس نے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر بروقت انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیئے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور دیگر کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں کہ ملک میں انتخابات مقررہ مدت میں ہونے کو یقینی بنایا جائے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ایس سی بی اے سے استفسار کیا کہ انہوں نے درخواست کب دائر کی تھی اور استفسار کیا کہ درخواست فوری طور پر سماعت کے لیے کیوں نہیں رکھی گئی؟
انہوں نے وکیل سے حقائق پر مبنی اپنے دلائل دینے کو بھی کہا اور درخواست گزاروں کی تیاری کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا۔
جب ایس سی بی اے کے وکیل عابد زبیری نے 2017 کی مردم شماری کے بارے میں بات کرنا شروع کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل حقائق پر بات نہیں کر رہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وکیل کو مردم شماری کے بارے میں اتنے ہی مسائل تھے تو انہوں نے 2017-2021 کے درمیان درخواست دائر کیوں نہیں کی، انہوں نے مزید کہا کہ وہ عمل مکمل ہونے کے بعد اب اس معاملے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
تاہم وکیل نے واضح کیا کہ وہ یہ موقف نہیں لے رہے کہ 2023 کی مردم شماری غلط تھی۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ مردم شماری میں تاخیر کے ذمہ داروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وہ ملک میں انتخابات چاہتے ہیں؟
وکیل نے کہا کہ جی ہاں، ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں انتخابات ہوں، تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ ایس سی بی اے کی درخواست مردم شماری کے معاملے پر مبنی ہے۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ 90 دن کی مہلت کب ختم ہوگی؟
زبیری نے جواب دیا کہ 90 دن کی مدت 3 نومبر کو مکمل ہوگی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہم 90 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیں تو کیا انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا؟
زبیری نے اس کے بعد تسلیم کیا کہ اگر سپریم کورٹ بھی حکم دیتی ہے تو 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا، جس پر چیف جسٹس نے وکیل کو اپنی درخواست میں ترمیم کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر صدر نے تاریخ نہیں دی تو کیا عدالت انہیں نوٹس جاری کرے۔
زبیری نے جواب دیا کہ صدر کے پاس استثنیٰ ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم صدر کے خلاف کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اپنی رٹ بحال کرنے کے احکامات جاری کرسکتے ہیں، اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوگا۔
زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس نے وکیل سے اتفاق کیا لیکن ان سے پوچھا کہ کیا یہ معاملہ ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک وکیل نے الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے صدر مملکت کو خط لکھا تھا اور حیرانی کا اظہار کیا کہ خط کا کیا ہوا۔
درخواست گزار وں میں سے ایک وکیل منیر احمد نے کہا کہ انہیں صدر کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر آپ انتخابات میں تاخیر کا ذمہ دار صدر کو ٹھہرا رہے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مردم شماری ایک آئینی تقاضہ ہے اور انتخابات میں تاخیر قابل فہم ہے، اس کے بعد انہوں نے وکیل کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے کیس کو 90 دنوں میں انتخابات کے معاملے تک محدود رکھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 90 دن میں الیکشن کروانا ممکن نہیں، بتائیں کیا ممکن ہے۔
وکیل انور منصور خان نے موقف اختیار کیا کہ صدر عارف علوی کے خط کے بعد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ بتائے۔
تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ صدر خود اس دستاویز میں رائے مانگ رہے ہیں جسے وہ استعمال کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے زبیری سے استفسار کیا آپ ایک بار پھر معاملات کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں، اگر صدر ذمہ دار ہیں تو کیا آپ صدر کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں؟۔
اس کے بعد ایس سی بی اے کے صدر نے کہا کہ 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد ایک آئینی ضرورت ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 90 روز میں الیکشن نہ کرانے والے شخص پر وکیل انگلیاں نہیں اٹھا رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ انتخابات کی بات کرتے ہیں تو ہم فیصلہ دے سکتے ہیں لیکن اگر آپ آئین کی تشریح کی بات کرتے ہیں تو ہمیں آئینی بینچ بنانا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنچ کے پاس دو سوالات ہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا ذمہ دار کون ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت 2 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے تحریری حکم نامے میں کہا کہ درخواست گزار وں کا مؤقف ہے کہ مردم شماری انتخابات میں تاخیر کے بہانے کے طور پر کی گئی۔