سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمے کی سماعت کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی شامل ہیں۔
عدالت نے مقدمے کے خلاف دائر 9 درخواستوں کو واپس لے لیا، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، درخواست گزاروں کے وکیل لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم راجہ بھی عدالت میں موجود تھے، درخواست گزار اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین بھی اس موقع پر موجود تھے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ وہ عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں تھی اور ساتھ ہی آرٹیکل 175 کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتے ہیں۔
9 مئی کے تشدد کے ملزمان کا ٹرائل سول عدالتوں کی طرز پر فوجی عدالتوں میں ہوگا، شہادتیں ریکارڈ کی جائیں گی اور فیصلے میں تفصیلی وجوہات شامل ہوں گی۔
اے جی پی نے کہا کہ غیر مجاز علاقوں اور عمارتوں پر حملوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھی چلایا جا سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا عام شہریوں کے بجائے دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے؟ اے جی پی نے جواب دیا کہ اگر کسی مشتبہ شخص کا مسلح افواج سے براہ راست تعلق ہے تو آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ میں مسلح افواج کے اندر نظم و ضبط کی بات کی گئی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون پڑھنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فوج کے اندرونی کام کاج کے لیے ہے، اس کے بعد انہوں نے پوچھا کہ وکیل اس قانون اور شہریوں کے درمیان تعلق کیسے ثابت کرے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ افسران کے اپنے فرائض انجام دینے کی بات کرتا ہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ جہاں تک نظم و ضبط کا تعلق ہے تو یہ قانون صرف مسلح افواج سے متعلق ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جب افسران کو ان کے فرائض کی انجام دہی سے روکا جاتا ہے تو دیگر افراد بھی اس قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر اس تشریح کو مان لیا جائے تو کیا قانون کا اطلاق کسی پر ہوگا؟ ایسی صورت میں بنیادی حقوق کا کیا ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ عارضی طور پر کام کرنے والوں سے بھی متعلق ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ صرف خدمت سے متعلق ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین تسلیم کرتا ہے کہ مسلح افواج کے ارکان کو روکنے والے عام شہری بھی ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون اور آئین مسلح افواج کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا پابند بناتا ہے، آئین کے مطابق اگر وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے تو انہیں بنیادی حقوق سے محروم کردیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ قانون مسلح افواج میں فعال ڈیوٹی پر موجود شخص پر لاگو ہوتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی شخص ڈیوٹی پر نہیں ہے لیکن کسی حملے سے متاثر ہوتا ہے تو وہ معاملہ مختلف تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ قانون مسلح افواج کے کسی بھی رکن پر بھی لاگو ہوتا ہے جس کے پاس لائسنس کے بغیر اسلحہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ کسی مشتبہ شخص کا کسی جرم میں مسلح افواج سے تعلق ہے تو اس قانون کا اطلاق بھی ہوگا۔
اتوار کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 9 مئی کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث شہریوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہو گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 3 اگست کے عدالتی حکم پر جمع کرائے گئے تحریری جواب میں حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹرائل اہم ہے۔
حکومت نے کہا ہے کہ 9 اور 10 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں کل 102 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
تحریری جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔