ریاض: سعودی عرب نے غیر قانونی تارکین وطن کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرنے کے الزامات کی تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے 12 ہزار پاکستانی پاسپورٹ سفارت خانے کے حوالے کردیے ہیں جو افغان شہریوں کے زیر استعمال تھے۔
سعودی عرب میں 12 ہزار افغانوں سے جعلی پاکستانی پاسپورٹ کی برآمدگی کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر جنرل مصطفی جمال قاضی کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
کمیٹی میں وزارت، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر افسران شامل ہیں، ڈائریکٹوریٹ کا ایک افسر کمیٹی کے سیکرٹری کے فرائض انجام دے گا۔
تحقیقاتی ادارے کو مستقبل میں اس مسئلے کی روک تھام کے بارے میں تجاویز دینے کے لئے ١٥ دن کا وقت دیا گیا ہے، اس کے علاوہ نادرا، ایف آئی اے اور اسکینڈل میں ملوث پاسپورٹ افسران پر بھی ذمہ داری عائد کی جائے گی۔
گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں حکام نے افغان شہریوں سے 12 ہزار پاکستانی پاسپورٹ برآمد کیے تھے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک میں غیر قانونی تارکین وطن، خاص طور پر افغانوں کو جعلی شہریت دستاویزات جاری کرنے میں ملوث شرپسند عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ سعودی حکام نے پاکستانی سفارتخانے کو افغان شہریوں سے بڑی تعداد میں پاکستانی پاسپورٹ برآمد کرنے سے آگاہ کیا تھا۔
اس وقت یہ خبر آئی تھی کہ تحقیقات کے نتیجے میں مرکزی ملزم عمر جاوید کو جعلی پاسپورٹ بنانے کے الزام میں لاہور سے گرفتار کیا گیا ہے۔
جاوید کی گرفتاری پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کے ایک سابق افسر اور گریڈ 15 کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری اور تفتیش کے بعد ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ جعلی شناختی کارڈز پر افغان شہریوں کو جاری کیے گئے۔
اسی ہفتے چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل منیر افسر نے سینیٹرز کو بتایا کہ ان کے ادارے کا کچھ عملہ جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) کے اجراء میں ملوث ہے۔
نادرا کے سربراہ نے یہ انکشاف سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ میں جعلی شناختی کارڈ، بلیک مارکیٹ میں شہریوں کے خاندانی ڈیٹا کی دستیابی اور ایک ہی شناختی کارڈ پر متعدد سموں کے اجراء کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کیا جو غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔
چیئرمین نادرا نے قانون سازوں کو بتایا کہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور اب تک 84 اہلکاروں کو معطل کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پرائیویسی کے معاملات سے متعلق کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین سزا سے بچ جاتے ہیں۔
سینیٹ کے پینل نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جدید اقدامات کی سفارش کی۔