خصوصی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو جیل سے اپنے بیٹوں سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔
جسٹس ابو الحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو اپنے بیٹوں سے ٹیلی فون پر بات کرنے کا حکم دیا۔
وکیل شیراز احمد رانجھا نے عدالت کو بتایا کہ تمام قیدیوں کو اپنے اہل خانہ سے فون پر بات کرنے کی اجازت ہے اور عام طور پر ہفتہ کو کالز کی اجازت ہوتی ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جیل ایس او پیز جمع کرائے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت قید افراد کو فون کالز کی اجازت نہیں ہے۔
وکیل نے کہا کہ اگرچہ جیل مینوئل میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں بین الاقوامی فون کالز کی اجازت دی ہے۔
رانجھا نے شرعی عدالت کا فیصلہ عدالت میں پیش کیا جس پر جج نے فیصلہ دیا کہ فون کال کی اجازت دی جائے۔
وکیل نے مطالبہ کیا کہ اٹک جیل کے جیل سپرنٹنڈنٹ کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے کیونکہ انہوں نے عدالت کے سامنے حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔
عمران خان اس وقت آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں اڈیالہ جیل میں ہیں۔ اس کیس میں ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کے طور پر بھیجے گئے ‘کلاسیفائیڈ’ سائفر کے مندرجات کا انکشاف کیا اور اس طرح آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔