اسلام آباد: سعودی عرب نے افغان شہریوں سے 12 ہزار پاکستانی پاسپورٹ برآمد کر لیے، اور پاکستانی سفارت خانے کو پاسپورٹ برآمد کرنے سے آگاہ کردیا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک میں غیر قانونی تارکین وطن، خاص طور پر افغانوں کو جعلی شہریت دستاویزات جاری کرنے میں ملوث شرپسند عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔
ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ سعودی حکام نے ریاض میں پاکستانی سفارت خانے کو افغان شہریوں سے بڑی تعداد میں پاکستانی پاسپورٹ برآمد کرنے سے آگاہ کردیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ مصطفیٰ قاضی اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
تفتیش کے نتیجے میں مرکزی ملزم عمر جاوید کو جعلی پاسپورٹ بنانے کے الزام میں لاہور سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
جاوید کی گرفتاری پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کے ایک سابق افسر اور گریڈ 15 کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری اور تفتیش کے بعد ہوئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ جعلی شناختی کارڈز پر افغان شہریوں کو جاری کیے گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ قاضی، جنہوں نے حال ہی میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے، جعلی پاسپورٹ بنانے میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے ایف آئی اے حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔
سعودی عرب میں پاکستانی سفیر سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کردیا۔
دوسری جانب وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات جاری ہیں۔ اس کے علاوہ نادرا کے اعداد و شمار کی بھی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل منیر افسر نے سینیٹرز کو بتایا کہ ان کے ادارے کا کچھ عملہ جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز (سی این آئی سی) کے اجراء میں ملوث ہے۔
نادرا کے سربراہ نے یہ انکشاف سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ میں جعلی شناختی کارڈ، بلیک مارکیٹ میں شہریوں کے خاندانی ڈیٹا کی دستیابی اور ایک ہی شناختی کارڈ پر متعدد سموں کے اجراء کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کیا جو غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔
چیئرمین نادرا نے قانون سازوں کو بتایا کہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور اب تک 84 اہلکاروں کو معطل کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پرائیویسی کے معاملات سے متعلق کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین سزا سے بچ جاتے ہیں۔
سینیٹ کے پینل نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جدید اقدامات کی سفارش کی۔