پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کو ‘درست فیصلہ’ قرار دیتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اس فیصلے پر جشن کیوں منا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ مجموعی طور پر سپریم کورٹ کا فیصلہ درست تھا۔
اس سے ایک روز قبل سپریم کورٹ نے 10-5 کی اکثریت سے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کو برقرار رکھا تھا، ایک قانون جو چیف جسٹس آف پاکستان کے انتظامی اختیارات کو ختم کرتا ہے، کو آئینی قرار دیا تھا اور قانون کے تقاضوں کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی سمیت 8 سے 7 کی اکثریت نے قانون کی دفعہ 5 کی ذیلی شق (2) کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
سابقہ اپیل کے حق سے انکار کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف جیسے ممکنہ درخواست گزار سیاست میں حصہ لینے سے اپنی تاحیات نااہلی کے خلاف اپیل نہیں کر سکتے۔
ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وطن واپس آئیں گے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ فیصلہ نواز شریف کے لیے اچھا نہیں تو شہباز شریف اس فیصلے پر خوش کیوں ہیں، میں صرف ایک معصوم سوال پوچھ رہا ہوں، پی ٹی آئی اور شہباز شریف دونوں اس فیصلے پر خوش ہیں۔
اسد عمر فل کورٹ کے آرٹیکل 184 (3) کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کا حوالہ دے رہے تھے، جس کا مطلب ہے کہ نواز شریف اپنی تاحیات نااہلی کو چیلنج نہیں کر سکیں گے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سفارتی کیبل کے مبینہ استعمال سے متعلق کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ خفیہ دستاویز کو قانونی طور پر استعمال کیا گیا۔
خیال رہے کہ رواں سال اگست میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔
اسد عمر نے کہا کہ سفارتی سائفر چار افسران کو بھیجا جاتا ہے جن میں وزیر اعظم، وزارت خارجہ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت میں منصوبہ بندی کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے انہوں نے خود کو سائفر تنازعہ سے دور رکھتے ہوئے کہا، ایف آئی آر میں صرف میرا نام تھا نہ کہ وزارت منصوبہ بندی کا۔
دریں اثناء اسد عمر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس میں اے ٹی سی کے روبرو پیش ہوئے۔