سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) نے منگل کے روز فلسطینی صدر محمود عباس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
سعودی میڈیا کے مطابق گفتگو کے دوران ایم بی ایس نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور عباس کو یقین دلایا کہ ان کا ملک فلسطینی عوام کے جائز حقوق کے حصول، ان کی امیدوں اور امنگوں کے حصول اور منصفانہ اور دیرپا امن کے حصول کے لیے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
حماس کی جانب سے ہفتے کی علی الصبح کیے گئے اس اچانک حملے کے نتیجے میں مقبوضہ علاقے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر غیر معمولی پابندی کا اعلان جنگ زدہ فلسطینیوں کو خوراک اور پٹرول کی فراہمی روکنے کی کوشش میں کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ کم از کم ایک ہزار اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ فلسطین کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ شہدا کی تعداد 687 تک پہنچ گئی ہے۔
یہ تشدد ان قیاس آرائیوں کے بعد شروع ہوا کہ سعودی عرب، جس نے کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، ایک معاہدے کے حصے کے طور پر تعلقات کو معمول پر لانے پر رضامند ہو جائے گا جس میں وہ امریکہ سے سلامتی کی ضمانت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سویلین جوہری پروگرام کی ترقی میں مدد حاصل کرے گا۔
تاہم ایم بی ایس نے گزشتہ ماہ فاکس نیوز کو بتایا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ سعودی عرب کے لیے ‘بہت اہم’ ہے، جہاں اسلام کے مقدس ترین مقامات مکہ اور مدینہ ہیں۔
ہمیں اس حصے کو حل کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں فلسطینیوں کی زندگی کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معمول پر لانے کی جانب پیش رفت کو اب جاری لڑائی سے شدید دھچکا لگا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق 38 سالہ صدر نے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے فون پر اس بحران کے بارے میں بات کی ہے۔