فلسطینی علاقے میں اے ایف پی کے ایک صحافی کے مطابق ہفتے کی صبح غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر پانچ ہزار سے زائد راکٹ داغے گئے جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔
یروشلم میں اے ایف پی کے ایک صحافی نے شہر بھر میں سائرن بجنے کے چند لمحوں بعد راکٹوں کو روکتے ہوئے دیکھا۔
جب حماس کے مسلح ونگ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، جسے اس نے “آپریشن الاقصی فلڈ” کا نام دیا، اسرائیلی فوج نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ پناہ حاصل کریں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے گروپ کے حوالے سے بتایا کہ ‘ہم نے قابض (اسرائیل) کے تمام جرائم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کا احتساب کیے بغیر ہنگامہ آرائی کا وقت ختم ہو چکا ہے، ہم آپریشن الاقصیٰ فلڈ کا اعلان کرتے ہیں اور ہم نے 20 منٹ کے پہلے حملے میں 5 ہزار سے زائد راکٹ فائر کیے۔
اسرائیلی فوج نے ملک کے جنوبی اور وسطی علاقوں میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک خطرے کی گھنٹی بجا دی اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ بم وں کی پناہ گاہوں کے قریب رہیں۔
اسرائیلی فوج نے مزید معلومات فراہم کیے بغیر یہ بھی کہا ہے کہ متعدد دہشت گرد غزہ کی پٹی سے اسرائیلی علاقے میں گھس آئے ہیں۔
غزہ سے اسرائیلی علاقے میں بڑے پیمانے پر راکٹ فائر کیے گئے ہیں اور دہشت گرد مختلف داخلی راستوں سے اسرائیلی علاقے میں گھس آئے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کے جنوبی اور وسط میں رہنے والوں کو محفوظ علاقوں کے قریب رہنے کی ضرورت ہے اور غزہ کے مضافات میں رہنے والوں کو ایک محفوظ جگہ کے اندر رہنا چاہیے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی افواج غزہ کے اندر کارروائیاں کر رہی ہیں، بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حماس کو ان واقعات کے نتائج اور ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دریں اثناء یروشلم پوسٹ نے اسرائیلی فوج کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے “جنگ کے لئے تیار ہونے کی حالت” کا اعلان کیا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق اس حملے میں ایک اسرائیلی خاتون جاں بحق اور 15 زخمی ہوگئے۔
میگن ڈیوڈ ایڈوم ایمرجنسی سروسز نے دعویٰ کیا ہے کہ 60 سالہ خاتون براہ راست حملے کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وسطی اسرائیل میں ایک عمارت پر راکٹ لگنے سے ایک 70 سالہ خاتون کی حالت تشویشناک ہے اور ایک اور شخص پھنس گیا ہے۔
ایک اور واقعہ میں ایک 20 سالہ شخص چھرے لگنے سے معمولی زخمی ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے بڑھتے ہوئے تشدد سے نمٹنے کے لیے ایک سکیورٹی اجلاس کا اعلان کیا ہے۔
اس تنازع کی جڑیں 2007 ء سے غزہ کی دیرینہ اسرائیلی ناکہ بندی سے جڑی ہوئی ہیں جب حماس نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔
خطے میں تباہ کن جنگیں ہوئی ہیں، جس میں تازہ ترین اضافہ ستمبر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد ہوا ہے۔
اس عرصے کے دوران اسرائیل نے غزہ کے مزدوروں کے لیے سرحد دو ہفتوں کے لیے بند کر دی تھی جس کے نتیجے میں مظاہرے اور جھڑپیں ہوئیں، ناقدین نے سرحد کی بندش کو فلسطینی کارکنوں کے خلاف اجتماعی سزا قرار دیا۔
28 ستمبر کو جب سرحد دوبارہ کھولی گئی تو حالات کچھ دیر کے لیے پرسکون ہو گئے، جس سے غزہ کے 2.3 ملین لوگوں کو امید ملی، تاہم حالیہ راکٹ حملے نے اس تنازعے کو دوبارہ جنم دیا۔
صرف اس سال ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 247 فلسطینی، 32 اسرائیلی اور دو غیر ملکی شامل ہیں، سب سے زیادہ ہلاکتیں مغربی کنارے میں ہوئیں، جس پر 1967 کے عرب اسرائیل تنازع کے بعد سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔
مغربی کنارے میں فوج کے چھاپوں، اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کے حملوں اور فلسطینیوں اور ان کی املاک کے خلاف آبادکاروں کے تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
غیر قانونی بستیوں میں انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزراء کی موجودگی بین الاقوامی قوانین کے تحت صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔