اسلام آباد: موسم سرما میں گیس کی طلب میں اضافے کی توقعات کے پیش نظر نگران حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا وہ مہنگے آر ایل این جی کو گھریلو شعبے میں منتقل کرے اور گردشی قرضوں میں اضافہ کرے۔
وزارت توانائی کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر حکومت آر ایل این جی انجکشن کی لاگت برداشت کرتی ہے تو اس سے گردشی قرضوں میں 200 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔
اگرچہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے 7-8 اور 13-14 دسمبر کو فراہم کیے جانے والے دو سپاٹ ایل این جی کارگوکے لئے بولیاں طلب کی ہیں، لیکن خریداری بولی کی قیمت پر منحصر ہے۔ بولیاں ٤ اکتوبر کو کھولی جائیں گی۔
پی ایل ایل جنوری 2024 کے مہینے کے لئے دو اور اسپاٹ کارگو کے لئے بھی بولی طلب کرسکتا ہے۔
اب تک 248 ارب روپے مالیت کی آر ایل این جی 2018 سے اب تک گھریلو شعبے میں داخل کی جاچکی ہے لیکن اس کی کوئی ریکوری نہیں ہوسکی کیونکہ گھریلو صارفین سے لاگت کی وصولی مشکل ہے۔
رہائشی صارفین کے لیے ٹیرف مقامی گیس پر مبنی ہوتے ہیں نہ کہ درآمد شدہ گیس پر۔ ایسے میں اگر سردیوں کے دوران رہائشی شعبے کو چار ماہ کے لیے آر ایل این جی فراہم کی جاتی ہے تو مزید 200 ارب روپے گردشی قرضوں میں شامل ہو جائیں گے۔
آئی ایم ایف حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ گیس کے شعبے میں گردشی قرضوں میں اضافے کو ختم کرنے کے لیے تمام صارفین سے آر ایل این جی کی مکمل قیمتیں وصول کرے۔
آئی ایم ایف کے جائزہ مذاکرات اکتوبر کے آخر میں ہونے کا امکان ہے، عہدیدار نے بتایا کہ گردشی قرضوں کی وجہ سے گیس کا شعبہ پہلے ہی ناقابل برداشت ہو چکا ہے جو اب تک 2900 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان اس وقت ٹرم معاہدوں کے تحت بیرون ملک سے آر ایل این جی سپلائی حاصل کر رہا ہے جس میں قطر سے برینٹ کے 13.37 فیصد پر 5 کارگو، برینٹ کے 10.2 فیصد پر قطر سے دوبارہ 3 کارگو اور برینٹ کے 12.14 فیصد پر ای این آئی سے ایک کارگو شامل ہے۔
لہذا 900 ایم ایم سی ایف ڈی درآمد شدہ گیس دسمبر میں گیس کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
عہدیدار نے انکشاف کیا کہ اس حقیقت نے نگران حکومت کو اوپن مارکیٹ سے دو کارگو درآمد کرنے پر مجبور کیا ہے جس سے درآمد شدہ گیس 900 ایم ایم سی ایف ڈی سے بڑھ کر 1100 ایم ایم سی ایف ڈی ہوجائے گی۔
مقامی سطح پر گیس کی پیداوار کم ہو کر 3.2 بی سی ایف ڈی رہ گئی ہے اور یہ ہر سال 9 سے 10 فیصد تک کم ہو رہی ہے۔
رواں موسم گرما میں گھریلو شعبے کو 8 گھنٹے سے زائد گیس دستیاب نہیں تھی کیونکہ یہ صبح 6 بجے سے صبح 9 بجے تک تین گھنٹے، دوپہر 12 بجے سے دوپہر 2 بجے تک دو گھنٹے اور شام 6 بجے سے رات 9 بجے تک تین گھنٹے کے لیے دستیاب تھی۔
مقامی سطح پر گیس کی کم ہوتی پیداوار کو مدنظر رکھتے ہوئے مقامی گیس صرف 6 گھنٹے کے لیے دستیاب ہونی چاہیے یعنی صبح، دوپہر اور شام کو کھانا پکانے کے اوقات میں دو دو گھنٹے۔
اگر حکومت 8 سے 9 گھنٹے گیس کی دستیابی برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے پاس آر ایل این جی کو گھریلو شعبے کی طرف موڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
عہدیدار نے بتایا کہ سوئی سدرن کے سسٹم میں زیادہ سے زیادہ گیس 725 ایم ایم سی ایف ڈی اور سوئی ناردرن کے سسٹم میں 820 ایم ایم سی ایف ڈی ہوسکتی ہے۔
تاہم، بجلی کے شعبے نے بجلی کی پیداوار کے لئے اپنی طلب کو کم کر دیا ہے کیونکہ سردیوں کے موسم میں ملک بھر میں بجلی کی کھپت 10،000 میگاواٹ تک گر جاتی ہے. بجلی کے شعبے نے نومبر کے لئے اپنی طلب کو کم کرکے 200 ایم ایم سی ایف ڈی، دسمبر کے لئے 250، جنوری 2024 کے لئے 350 ایم ایم سی ایف ڈی اور فروری 2024 کے لئے 150 ایم ایم سی ایف ڈی کردیا ہے۔
دریں اثنا سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کا کہنا ہے کہ وہ موسم سرما کے دوران وسط اکتوبر سے مارچ تک پنجاب، خیبرپختونخوا اور شمالی علاقوں میں گھریلو صارفین کو آر ایل این جی کی فراہمی شروع کرے گی۔