اسلام آباد/کراچی: نگران حکومت ریٹیل، زراعت اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز کے لیے ٹیکس نظام میں ترمیم اور قابل استعمال اثاثوں پر ویلتھ ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت ایف بی آر کے ٹیکس وصولیوں کے ہدف 9.2 ٹریلین روپے کو پورا کرنے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 15 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے جو اگلے دو سالوں میں 13 ٹریلین روپے کے مساوی ہے۔
کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی بحالی (سی سی ای آر) کو بتایا گیا کہ حکومت ریٹیل، زراعت اور رئیل اسٹیٹ شعبوں کے لئے ٹیکس کے نظام میں ترامیم اور قابل منتقل اثاثوں پر ویلتھ ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔
حکومت بااثر طبقوں اور طاقتور لابیوں کو سالانہ 1.3 ٹریلین روپے کی تین بڑے ٹیکسوں پر دی گئی چھوٹ کو واپس لینے پر بھی غور کر رہی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں 1973 کے آئین میں درج مالی انتظامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکس پلان پر غور کر رہی ہیں۔
غیر منقولہ جائیداد پر کیپٹل گین ٹیکس (سی جی ٹی) کو معقول بنانے کا بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کے لئے اس شرح میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر وسیع تر اتفاق رائے پیدا ہو جاتا ہے تو ملک کی سب سے بڑی ٹیکس جمع کرنے والی اتھارٹی آرڈیننس جاری کرنے کے لئے ایک آرڈیننس پیش کر سکتی ہے۔
ایف بی آر ٹیکس ریٹرن اور ود ہولڈنگ ٹیکس نظام کو آسان بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسے یہ بھی امید ہے کہ مزید تین کھرب روپے کے زیر التواء عدالتی مقدمات حل ہوجائیں گے۔
حکومت کے اندرونی کام کاج سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 9.6 فیصد ہے جس میں سے ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب صرف 8.5 فیصد ہے اور گزشتہ مالی سال میں سالانہ وصولی 7.4 ٹریلین روپے تھی۔
ایف بی آر نے دو سال کے دوران 13 کھرب روپے ٹیکس وصولی کی تجویز دی ہے جو جی ڈی پی کے 15 فیصد کے مساوی ہے۔
ایف بی آر کے ایک عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ “ایف بی آر نے ٹیکس تعمیل اور کمزور نفاذ اور تعمیل کی وجہ سے 5.6 ٹریلین روپے کے فرق کا تخمینہ لگایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں بہتری لاتی ہے تو ٹیکس محصولات میں 3 کھرب روپے، انکم ٹیکس کے ذریعے 1.8 ٹریلین روپے اور کسٹمڈیوٹی (سی ڈی) اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کے ذریعے 0.8 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔