بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے وضاحت طلب کرلی ہے۔
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس اور لیوی کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے ملک کو 10 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
اس کی وجہ سے عالمی قرض دینے والے ادارے نے پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت خزانہ اور ایف بی آر سے وضاحت طلب کرلی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ماہانہ 143 ملین لیٹر پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ روکنے پر زور دیا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی کریٹاکی حکومت نے ایران کے راستے سرحد پار سے تیل کی اسمگلنگ کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔
9 ستمبر کو پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے متعلق حساس ادارے کی رپورٹ میں کچھ سنسنی خیز انکشافات کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ہر ماہ ایک کروڑ لیٹر ایرانی تیل پاکستان اسمگل کیا جاتا ہے۔
یہ تیل پاکستان کی جانب واقع سرحدی علاقوں رکھنی، لورالائی، میختار اور باوٹا میں اسمگل کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور چیک پوسٹ پر ٹرک اور ٹینکر جمع ہوتے ہیں جہاں سے ملک بھر میں سامان بھیجا جاتا ہے۔
بارڈر ملٹری پولیس کے افسران 100 سے 150 ٹرکوں کے قافلے سے 15 سے 20 کروڑ روپے وصول کرتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہر ٹرک 8،000 سے 10،000 لیٹر تیل لے جاتا ہے۔
موٹروے پر چیکنگ نہ ہونے کی وجہ سے روٹ کے ذریعے اسمگلنگ آسان اور پریشانی سے پاک ہے۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ پیٹرول پمپ مالکان 30 سے 40 فیصد ایرانی تیل ملا کر لاکھوں کماتے ہیں۔
اس غیر قانونی سرگرمی کی وجہ سے ملکی معیشت کو ہر ماہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔