اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
فل کورٹ کی سربراہی نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 8 رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ کے جج کے ازخود نوٹس اختیارات کو محدود کرنے سے متعلق قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کی۔
اس سے قبل جون میں ہونے والی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ (ریویو آف جسٹسز اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے درمیان مماثلت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمنٹ ان دونوں قوانین کو ہم آہنگ کرنے پر غور کر سکتی ہے۔
اس وقت کے چیف جسٹس نے اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت کو عدلیہ سے متعلق کوئی بھی قانون سازی کرتے وقت سپریم کورٹ کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے سابق چیف جسٹس کو بتایا کہ 9 جون کو ہونے والے بجٹ اجلاس کی وجہ سے ایکٹ پر فوری قانون سازی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ سیشن کے بعد سماعت کی جائے، جس کے بعد ایکٹ کی سماعت 18 ستمبر (کل) کو مقرر کی گئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اس سے قبل سپریم کورٹ میں اس ایکٹ کو آئین کے منافی قرار دینے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
پی ٹی آئی نے اپنے وکیل عزیر کرامت بھنڈاری کے توسط سے ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر مختصر بیان جمع کرایا اور سپریم کورٹ سے ایکٹ کی دفعات 2، 3، 4، 5، 7 اور 8 کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔
مزید برآں، پارٹی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت سے باہر ہے اور غیر قانونی ہے کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی پر اثر انداز ہوتا ہے جسے اس عدالت نے بار بار آئین کی بنیادی خصوصیت کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایکٹ سپریم کورٹ کی جانب سے مختلف آئینی دفعات کی طے شدہ تشریحات کے خلاف ہے۔
اس بل کا مقصد چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا ہے جسے پارلیمنٹ نے 10 اپریل کو مشترکہ اجلاس کے دوران منظور کیا تھا۔
قومی اسمبلی نے 21 اپریل کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کو بطور ایکٹ نوٹیفائی کیا تھا۔
تاہم اس کے ایکٹ بننے سے پہلے ہی اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور 13 اپریل کو اسی بنچ نے اس پر عمل درآمد روک تے ہوئے کہا تھا کہ اگلے حکم تک بل پر کسی بھی طرح سے عمل نہیں کیا جائے گا۔