اسلام آباد:سپریم کورٹ کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترمیم کیس کے فیصلے کے بعد ریفرنس، شکایات کی جانچ پڑتال، انکوائری اور انویسٹی گیشن کی سطح پر کرپشن کے تقریبا 2 ہزار مقدمات بحال ہونے کا امکان ہے۔
سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر بندیا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 2-1 کی اکثریت سے سابقہ مخلوط حکومت کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 میں کی گئی کچھ ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے آئین میں دیے گئے مفاد عامہ سے متعلق حقوق کے خلاف قرار دیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے احتساب قوانین میں کی گئی تبدیلیوں کو چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری، 6 سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف مقدمات بحال ہونے کا امکان ہے۔
زرداری، نواز شریف اور گیلانی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنسز دوبارہ کھولے جائیں گے، جبکہ عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنسز اور اشرف کے خلاف رینٹل پاور ریفرنس بحال کر دیا گیا، یہ تمام ریفرنسز احتساب عدالت سے منتقل کیے جا چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بحال کیے گئے 2000 کیسز میں سے 755 کیسز انکوائری مرحلے میں اور 292 انویسٹی گیشن اسٹیج پر واپس کیے گئے، ذرائع کے مطابق 510 کیسز 50 کروڑ روپے سے کم کے تھے جبکہ 168 کیسز آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق تھے۔
اسی طرح سیکشن 9 اے کے تحت 213 مقدمات بحال کیے گئے ہیں جبکہ 89 مقدمات فراڈ سے متعلق ہیں۔
نیب اب بھی تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہا ہے اور اس کی پراسیکیوشن برانچ اعداد و شمار مرتب کرنے میں مصروف ہے جو جمع کرنے کے بعد چیئرمین کو پیش کیا جائے گا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ قانونی مسئلہ یہ ہے کہ جسٹس (ر) سید اصغر حیدر کے پراسیکیوٹر جنرل احتساب کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد نیب پراسیکیوشن برانچ کا سربراہ نہیں ہے اور اب تک ان کے جانشین کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
مزید برآں ذرائع کے مطابق نیب بلوچستان نے چند ماہ قبل عدم ثبوت کی بنا پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے خلاف انکوائری بند کرنے کے لیے نیب ہیڈ کوارٹرز کو سفارش کی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب ہیڈ کوارٹرز سے انکوائری بند کرنے کی باضابطہ منظوری طلب کی گئی تھی۔