اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سرکاری عہدے داروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بحال کردیئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے قانون میں ترامیم کے خلاف تحریک انصاف کے سربراہ کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا، یہ چیف جسٹس بندیال کے عہدے کا آخری دن تھا کیونکہ وہ آج ریٹائر ہو رہے ہیں۔
بنچ نے 2-1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا جبکہ بینچ کے تیسرے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا۔
بینچ نے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 شقوں کو کالعدم قرار دے دیا، سپریم کورٹ نے نیب کے تمام مقدمات اور انکوائریاں بحال کردیں جن میں 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے مقدمات بھی شامل ہیں۔
عدالت نے بے نام اثاثوں کی تعریف اور آمدن سے زائد اثاثوں کی تعریف سے متعلق دفعات کو بھی خارج کردیا اور ساتھ ہی مقدمہ ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر ڈالنے کی ذمہ داری بھی خارج کردی۔
نیب کو سرکاری افسران کے خلاف کارروائی سے روکنے کی شق کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب کو 7 روز میں تمام مقدمات متعلقہ عدالتوں کو بھیجنے کا حکم دے دیا۔
جون 2022 میں پی ٹی آئی کے سربراہ نے قومی احتساب (دوسرا ترمیمی) ایکٹ 2022 کے تحت قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
چیف جسٹس عطا بندیال اور جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیا جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے اس سے اختلاف کیا۔
پی ٹی آئی سربراہ نے کہا تھا کہ نیب قانون میں ترامیم بااثر افراد کو فائدہ پہنچانے اور کرپشن کو جائز قرار دینے کے لیے کی گئی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے حالیہ سماعتوں کے دوران سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) کے منجمد قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ سے درخواست کی تھی۔
تاہم چیف جسٹس نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ قریب ہے اور یہ درخواست کم از کم 19 جولائی 2022 سے کافی عرصے سے زیر التوا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 5 ستمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
سابق وزیر اعظم کی درخواست پر 53 سماعتوں کے دوران بنچ اس معاملے پر منقسم نظر آیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر مسلسل سوالات اٹھائے جبکہ چیف جسٹس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی جانے والی بعض ترامیم پر چیف جسٹس بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے تنقید کی۔
توقع کی جا رہی تھی کہ چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے قبل اس کیس کا فیصلہ سنا دیں گے اور اس فیصلے کے قومی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔