ایل سلواڈور میں رواں سال منعقد ہونے والے “مس یونیورس” مقابلے میں پانچ پاکستانی ماڈلز پہلی بار ملک کا نام روشن کرنے جا رہی ہیں۔
60 سے زائد ممالک پہلے ہی مس یونیورس 2023 کے لئے اپنے نمائندوں کے نام وں کا اعلان کر چکے ہیں۔
ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس ایونٹ کا اختتام 18 نومبر کو گرینڈ فائنل میں ہوگا، جس میں موجودہ ٹائٹل ہولڈر امریکہ سے تعلق رکھنے والی اربانی نولا گیبریل ان کی جانشین کا تاج پہنیں گی۔
مس یونیورس دنیا کا مقبول ترین مقابلہ حسن ہے اور اس ایونٹ کے لیے پاکستان کی پہلی بار ٹاپ ماڈلز کا اعلان کیا گیا ہے۔
ماڈلز میں کراچی سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ ایریکا رابن، لاہور کی 24 سالہ حرا انعام، راولپنڈی کی 28 سالہ جیسیکا ولسن، 19 سالہ امریکی نژاد ملکہ علوی اور پنجاب کی 26 سالہ سبرینہ وسیم شامل ہیں۔
ان پاکستانی ماڈلز کا انتخاب دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے 200 سے زائد درخواست دہندگان کے پول میں سے کیا گیا تھا۔
مس یونیورس پاکستان کی نیشنل ڈائریکٹر جوش یوگن نے کہا کہ اپنی نوعیت کے سب سے بڑے مقابلے کی تاریخ میں پہلی بار ایک بااختیار خاتون اپنے دل میں پاکستان کا نام لے کر آئے گی۔
ایریکا رابن پاکستان میں مثبت تبدیلی دیکھنے اور ملک کے تنوع کو اجاگر کرنے، تعلیم اور خواتین کو بااختیار بنانے کی وکالت کرنے کا ذریعہ بننا چاہتی ہیں۔
حرا انعام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی کا مقصد کامیابی ہے۔
وہ پاکستان میں معاشرے کے محروم طبقے کے لئے تعلیم کی مدد سے فنڈز جمع کرنے، شعور اجاگر کرنے اور غربت کے خاتمے میں مدد کرنے کے لئے پرامید ہیں۔
جیسیکا ولسن ایک سائبر سیکیورٹی انجینئر، ایک پرجوش مسافر، عوامی اسپیکر اور پرفارمنگ آرٹسٹ ہے، ملکہ علوی سب سے کم عمر ماڈل ہیں جو مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے جا رہی ہیں۔
کامیابی کی تعریف بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کامیابی کی کئی شناختیں ہوتی ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکی عارف علوی ایک طالب علم، کاروباری شخصیت، مواد مصنف، رقاصہ اور فیشن ڈیزائنر بھی ہیں۔
وہ عالمی سطح پر لوگوں کو یہ دکھانے کے لئے بے حد پرجوش ہیں کہ پاکستانی خواتین باصلاحیت اور رہنما ہیں۔
پراپرٹی کنسلٹنٹ، کوریوگرافر اور ایونٹ کی میزبان سبرینہ وسیم پاکستانی خواتین کے بارے میں نقطہ نظر تبدیل کرنا چاہتی ہیں، وہ اس بات پر روشنی ڈالنا چاہتی ہیں کہ پاکستان کی خواتین مضبوط، متحرک، جرات مند ہیں اور ایک ایسے کمرے میں بیٹھنے کی مستحق ہیں جہاں ان کی آواز سنی جاتی ہے اور ان کی رائے تبدیلی لانے کے لئے کافی اہمیت رکھتی ہے۔