حکام کی جانب سے ملک کے بڑے شہروں میں بلیک مارکیٹ کی تجارت کو روکنے کے لیے کریک ڈاؤن شروع کیے جانے کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے جس میں جمعرات کو اوپن مارکیٹ میں مزید تین ڈالر کی مضبوطی دیکھی گئی۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 3 روپے کے اضافے کے بعد 298 کی سطح پر پہنچ گیا۔
بلیک مارکیٹ آپریٹرز پر چھاپے اس ماہ کے اوائل میں اس وقت شروع ہوئے تھے جب 5 ستمبر کو روپیہ 333.7 روپے کی ریکارڈ کم ترین سطح پر آگیا تھا۔
فوج کی حمایت سے یہ مہم اس وقت شروع کی گئی جب ڈیلرز نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت کو روکنے کے لیے کارروائی کرنے کی درخواست کی۔
ڈیلرز کا کہنا ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں رواں ہفتے کے اوائل میں اوپن مارکیٹ میں پاکستانی کرنسی 300 روپے فی ڈالر سے کم ہوگئی اور ملک کے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں کروڑوں ڈالر واپس آ چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی اداروں کے سربراہان سمیت حکام کے ساتھ ایک اجلاس میں ای سی اے پی کے چیئرمین ملک بوستان اور ان کے ساتھیوں نے کہا تھا کہ اس معاملے کو فوری طور پر جنرل منیر تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
بوستان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ‘آرمی چیف نے نوٹس لیا ہے اور اوپن مارکیٹ میں سپلائی کی بحالی کا سہرا انہیں جاتا ہے۔’
ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جو اب غیر قانونی مارکیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے، ایک سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کریک ڈاؤن کی کامیابی کو سراہا۔
عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس کی وجہ ذخیرہ اندوزوں، بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں اور ڈالر کے اسمگلروں کے خلاف انتظامی اقدامات کا آغاز اور نفاذ ہے۔
حکومت نے غیر مجاز منی چینجرز اور دیگر مافیاز کے خلاف سخت احکامات جاری کیے ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے سے پشاور کے چوک یادگار بازار کی عام طور پر مصروف گلیوں میں سیکڑوں کرنسی کی دکانیں بند ہیں۔
ایک عمر رسیدہ تاجر حاجی لقمان خان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ‘چند روز قبل کچھ لوگ، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہیں، یہاں آئے اور اس مارکیٹ کے سینئر ارکان کو گرفتار کیا اور انہیں رنگین شیشوں کے ساتھ اپنی گاڑیوں میں ڈال کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے 3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے بعد پاکستان کے لیے اوپن مارکیٹ ریٹ کو کنٹرول کرنا بہت اہم ہے جس پر جولائی میں اتفاق کیا گیا تھا۔
آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہ ہو، بیل آؤٹ کی اگلی قسط کے اجراء سے قبل اس ماہ کے آخر میں شروع ہونے والی بات چیت کا ایک اہم حصہ ہوگا۔
متوازی مارکیٹوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے پیمانے کی نشاندہی کرتے ہوئے ای سی اے پی کے صدر شیخ علاؤ الدین نے کہا کہ بلیک مارکیٹ میں سالانہ لین دین تقریبا 5 ارب ڈالر ہے جبکہ ریگولیٹڈ اوپن مارکیٹ میں 7 ارب ڈالر ہے۔