پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری کے اس بیان سے دوری اختیار کرلی ہے جس میں انہوں نے حلقہ بندیوں کی تکمیل کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی حمایت کی تھی۔
قبل ازیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مردم شماری 2023 کے تحت نئی حلقہ بندیاں لازمی ہیں۔
تاہم پیپلز پارٹی نے 25 اگست کو سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس کے بعد مطالبہ کیا تھا کہ آئین کے مطابق 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں۔
بدین میں پریس کانفرنس کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا گیا کہ انتخابات کے حوالے سے ان کے اور زرداری کے موقف میں کیا فرق ہے؟
اس پر بلاول بھٹو زرداری سے پوچھیں کہ ان کے بیان سے کیا مراد ہے۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کے سی ای سی کے اجلاس کو یاد کیا جس کی صدارت ان کی اور سابق صدر نے کی تھی، جہاں فورم نے انتخابات کے وقت کے حوالے سے دونوں آراء پر غور کیا تھا اور پارٹی کے تمام قانونی ماہرین نے اجلاس کو بتایا تھا کہ آئین یہ واضح کرتا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر انتخابات کروانا ہوں گے۔
بدین میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میں اپنے خاندانی معاملات پر صدر زرداری کی پیروی کرنے کا پابند ہوں لیکن جہاں تک سیاسی معاملات، آئین اور پارٹی پالیسی کا تعلق ہے تو میں اپنے کارکنوں اور اپنی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں پر عمل کرنے کا پابند ہوں’۔
آج آصف علی زرداری الیکشن کمیشن کے دفاع میں سامنے آئے اور کہا کہ نئی مردم شماری کے نوٹیفکیشن کے بعد نئی حلقہ بندیاں لازمی ہو گئی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے دیے گئے زرداری کے بیان میں آئین کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے الیکشن اتھارٹی کے مینڈیٹ پر زور دیا گیا ہے۔
آصف علی زرداری کا یہ بیان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے مختلف رہنماؤں کے مطالبے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں الیکشن کمیشن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے اور 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے آئینی تقاضے پر عمل کرے۔
پارٹی نے ان مطالبات کا اعادہ الیکشن کمیشن کے ارکان کے ساتھ اپنے وفد کے مشاورتی اجلاس کے دوران کیا۔