واشنگٹن: ایک سینئر امریکی سکیورٹی اہلکار نے افغان فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ جب طالبان نے ملک پر قبضہ کیا تو انہوں نے فوجی سازوسامان چھوڑ دیا۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے لیے کوئی فوجی سازوسامان نہیں چھوڑا ہے۔
امریکی عہدیدار کا یہ بیان عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور سفیر مسعود خان کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے چھوڑے گئے ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔
وزیر اعظم کاکڑ نے پیر کے روز صحافیوں کے ایک منتخب گروپ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ یہ سازوسامان، جس میں نائٹ ویژن چشموں سے لے کر آتشیں اسلحہ تک مختلف قسم کی اشیاء شامل ہیں، اب اسلام آباد کے لئے ایک نئے چیلنج کے طور پر ابھر رہا ہے، کیونکہ اس نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی لڑنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔
کربی نے کہا کہ امریکہ نے کابل میں محدود مقدار میں سازوسامان اور طیارے چھوڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہوائی اڈے پر امریکہ نے ٹرک اور تکنیکی اور آگ بجھانے کے آلات چھوڑ ے تھے۔
جب ایک صحافی نے ان کی توجہ ان خبروں کی طرف مبذول کرائی کہ افغانستان میں 7 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے تو قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ جن فوجی سازوسامان کے بارے میں بات کی جا رہی ہے وہ دراصل افغان دفاعی افواج کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔
کربی نے کہا کہ یہ تمام فوجی سازوسامان افغان دفاعی افواج کے لیے تھا کیونکہ یہ امریکی مشن تھا کہ وہ اپنی استعداد کار میں اضافہ کرے اور انہیں اپنے ملک کی سلامتی کی ذمہ داری خود نبھانے کے قابل بنائے، انہوں نے کہا کہ یہ افغان فورسز ہی تھیں جنہوں نے یہ سازوسامان چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو طویل عرصے سے دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے اور اس کی ایک اہم وجہ افغانستان کے ساتھ اس کی سرحد ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ صدر جو بائیڈن نے پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے ساتھ سب سے خطرناک ملک کیوں کہا تھا، کربی نے کہا کہ صدر بائیڈن کو احساس ہے کہ پاکستان کو اب بھی خطرات کا سامنا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تمام معاملات بشمول موجودہ سیکیورٹی خطرات پر کام جاری رکھے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا صدر بائیڈن جی 20 سربراہ اجلاس کے دوران کشمیر اور بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کریں گے اور وائٹ ہاؤس اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھتا ہے کہ پاکستان نے متعدد بار بھارت کے ساتھ بات چیت کی تجویز پیش کی ہے تو انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو تمام معاملات پر خود بات چیت کرنی ہوگی۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرنا صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی کا لازمی حصہ ہے اور وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بات کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بات کی تھی اور وہ اپنے دورہ بھارت کے دوران اس مسئلے پر بات کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔