اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے ہفتے کے روز گرفتار کیے گئے قریشی کو اسی ایکٹ کے تحت درج سائفر کیس کی سماعت کے لیے آج خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کے جج ابوالحسنات نے قریشی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے کی سماعت کی۔
ذرائع کے مطابق سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مبینہ لاپتہ سائفر کی بازیابی کے لیے قریشی کے 13 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جبکہ وکیل شاہین نے ایف آئی اے کی درخواست کی مخالفت کی۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اٹک جیل میں کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جج حسنات نے ان کیمرہ سماعت شروع ہونے سے قبل غیر مجاز افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔
جج نے حکم دیا کہ یہ آفیشل سیکریٹس ایکٹ کا معاملہ ہے، غیر متعلقہ لوگوں کو چلے جانا چاہیے، اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری کمرہ عدالت کے باہر تعینات تھی۔
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین، انتظار پنجوٹھہ، گوہر علی اور علی بخاری کمرہ عدالت میں موجود ہیں جبکہ پارٹی کے جونیئر وکلا کو جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت کی کارروائی قانون کے مطابق کیمرے میں رہے گی۔
عدالت کا قیام صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی منظوری پر پیدا ہونے والے تنازعکے دوران سامنے آیا ہے۔ اس قانون کو 7 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل سے چند دن قبل نافذ کیا گیا تھا۔
شاہ محمود قریشی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان دونوں پر سیاسی فائدے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ دونوں نے خفیہ دستاویز کے مندرجات کو غیر مجاز افراد کے سامنے ظاہر کیا اور خفیہ مقاصد اور ذاتی فائدے کے لیے ریاستی سلامتی کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔
پی ٹی آئی رہنما کو ہفتہ (19 اگست) کو اس معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ خان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 15 اگست کو آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923 کی دفعہ 5 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔