اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو نیب قانون میں ترامیم کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دینے کا مشورہ دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں نیب ترمیمی کیس کی سماعت فل کورٹ میں ہونی چاہیے، درخواست پر 48 ویں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیس کا اپنا اثر پڑے گا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس منصور اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فوجی عدالت کے کیس میں اعتراض اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ کے سیکشن 3 اور 4 کے تحت کم از کم 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے، چیف جسٹس اس کیس کے لیے فل کورٹ تشکیل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ عام شہریوں کے فوجی ٹرائلز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔
انہوں نے کہا، میرا اعتراض یہ ہے کہ صرف فل کورٹ کو ہی اس طرح کے معاملوں کی سماعت کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کو پہلے پریکٹس اور پروسیجر قانون پر فیصلہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو معاملہ مختلف ہوتا۔
واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ ان دو ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس سے قبل کہا تھا کہ ‘چیف جسٹس آف پاکستان (عمر عطا بندیال) کے دفتر کو حاصل ‘ون مین شو’ کے اختیارات پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل یاسر امان نے عدالت کو بتایا کہ حارث نے خراب صحت کی وجہ سے امان کو ان کی جگہ پیش ہونے کے لیے کہا تھا۔
سپریم کورٹ نے امان کو دلائل پیش کرنے کی اجازت دے دی، سماعت کے آغاز پر جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی کے وکیل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کا جواب دینے میں ناکام رہے ہیں کہ ترامیم کون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے 47 ویں سماعت کے دوران یہ بھی پوچھا تھا کہ نیب کی ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل کئی بار پوچھے گئے بنیادی حقوق کے سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے نہیں لگتا کہ ہم 2023 میں قانون میں کی گئی ترامیم پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ نیب کی 2022 کی ترامیم کو عدالت میں چیلنج کیا گیا۔
بعد ازاں عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل کو نیب کی نئی ترامیم اور تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 28 اگست تک ملتوی کردی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیس کی سماعت 28 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔
ہم اس کیس کو نمٹانا چاہتے ہیں کیونکہ بنچ کا ایک رکن ریٹائرمنٹ کے قریب ہے۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ ضروری نہیں کہ فیصلہ نیب ترمیمی کیس کے میرٹ پر ہوگا، یہ ممکن ہے کہ فیصلہ کیس کی قبولیت پر آئے۔