بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کی جانب سے براہ راست حکومت کے نفاذ کو 4 برس ہونے کے موقع پر مشتبہ باغیوں کے ساتھ جھڑپ کے دوران تین فوجی ہلاک ہو گئے۔
جنوبی کشمیر کی وادی ہلان کے جنگلات میں مسلح باغیوں کی تلاش میں فوج کے گشتی دستے کی جمعے کی رات دیر گئے عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ ہوئی، جس کے نتیجے میں تینوں زخمی ہو گئے۔
پولیس نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا کہ تینوں اہلکار زخمی ہوئے اور بعد میں دم توڑ گئے، باغیوں کا سراغ لگانے کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
اگست 2019 کے بعد سے مسلح باغیوں اور سرکاری فورسز کے درمیان جھڑپوں میں نمایاں کمی آئی ہے، جب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے شورش زدہ مسلم اکثریتی علاقے کی محدود خودمختاری کو ختم کر دیا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد شورش زدہ خطے میں امن اور ترقی لانا ہے، لیکن تبدیلی کے بعد سے چار سالوں میں تقریبا 900 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے 144 اہلکار بھی شامل ہیں۔
رواں سال اب تک کم از کم 63 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 9 عام شہری، 16 سرکاری فورسز کے اہلکار اور 38 مشتبہ باغی شامل ہیں۔
نوجوان اب بھی باغی گروہوں میں شامل ہو رہے ہیں جو دہائیوں سے خطے کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ انضمام کے لیے لڑ رہے ہیں، جو تقسیم شدہ ہمالیائی علاقے کے ایک چھوٹے سے حصے کو کنٹرول کرتا ہے۔
انڈیا کی سپریم کورٹ اس وقت اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ کیا مودی حکومت نے کشمیر کی آئینی طور پر دی گئی نیم خودمختاری کو معطل کرنے کے لیے قانونی طور پر کام کیا ہے۔
اس کے بعد سے اس خطے میں شہری آزادیوں پر شدید قدغن دیکھی گئی ہے، مظاہروں پر پابندیاں عائد ہیں اور صحافیوں نے سرکاری طور پر ہراساں کیے جانے کی شکایت کی ہے۔
مقامی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے متعدد رہنماؤں کو اس وقت رات بھر حراست میں لے لیا گیا جب حکام نے انہیں 2019 کے فیصلے کو 4 برس ہونے کے موقع پر احتجاج کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی نے ٹوئٹر پر ایک پارٹی عہدیدار کو پولیس کی جانب سے حراست میں لیے جانے کی فوٹیج کے ساتھ پوسٹ کیا، یہ سب ملک میں رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر کے تجارتی اضلاع کے ارد گرد ہفتہ کے روز سیکڑوں پولیس اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا تاکہ برسی کے موقع پر نظم و ضبط برقرار رکھا جاسکے۔
اظہار یکجہتی کے طور پر احتجاج کے دوران سرینگر میں اکثر شہر کی دکانیں بند رہتی ہیں۔
تاہم شہر کے دکانداروں کی نمائندگی کرنے والی تجارتی ایسوسی ایشنز کے دو ارکان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے خوردہ فروشوں کو دن بھر کھلے رہنے کی زبانی ہدایت کی گئی تھی۔