لاہور: ڈی آئی جی شارق جمال خان ڈی ایچ اے کے نجی فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔
پولیس کے مطابق حکام نے لاش فوری طور پر نیشنل اسپتال ڈی ایچ اے منتقل کردی، تاہم بعد ازاں پوسٹ مارٹم کے لیے جناح اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
جاں بحق ہونے والے ڈی آئی جی فیز 4 میں رہائش پذیر تھے اور ڈیفنس اے تھانے کی حدود میں تھے، جبکہ جس فلیٹ میں یہ واقعہ پیش آیا وہ تھانہ نشتر کی حدود میں آتا ہے۔
خبر ملتے ہی ایک اعلیٰ افسر کی سربراہی میں پولیس افسران کی ایک ٹیم ذاتی طور پر تحقیقات کا جائزہ لینے کے لیے اسپتال پہنچی، افسر کی غمزدہ بیوہ بھی اسپتال میں موجود تھی۔
ڈی آئی جی کے ڈیفنس فلیٹ کے دورے کا مقصد غیر واضح رہا، جس سے یہ سوالات پیدا ہوئے کہ آیا یہ ان کا وہاں پہلا موقع تھا یا وہ اس سے پہلے بھی اکثر اس مقام کا دورہ کر چکے تھے۔
واقعے کے جواب میں متوفی ڈی آئی جی کی اہلیہ کی جانب سے مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
ایک سرکاری بیان میں مقامی محکمہ پولیس نے موت کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے جامع تحقیقات شروع کرنے کی تصدیق کی ہے۔
فی الحال، حکام قتل، خودکشی اور حادثاتی موت سمیت متعدد امکانات پر غور کر رہے ہیں.
اس کیس کے سلسلے میں 10 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں قرۃ العین نامی خاتون اور عدیل نامی شخص بھی شامل ہیں۔
پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیے گئے افراد میں شارق جمال کی گھریلو ملازمہ بھی شامل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حراست میں لی گئی خاتون اور مرد وہ تھے، جنہوں نے مرحوم ڈی آئی جی کو اسپتال پہنچایا تھا۔
مزید برآں، قانون نافذ کرنے والے حکام نے جائے وقوعہ سے فنگر پرنٹس اور دیگر شواہد اکٹھے کیے ہیں، تاہم شارق جمال کی موت کی حتمی وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ذریعے معلوم کی جائے گی۔
واضح رہے کہ شارق جمال اس سے قبل پولیس فورس میں ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔
شارق جمال خان ڈی آئی جی ٹریفک اور ڈی آئی جی ریلوے سمیت مختلف عہدوں پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
وہ فی الحال آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے اور حال ہی میں انہوں نے ایک ڈپارٹمنٹل کورس مکمل کیا تھا۔