سپریم کورٹ نے کوئٹہ میں وکیل کے قتل کیس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نامزدگی کے خلاف درخواست پر انہیں طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ نے جون کے پہلے ہفتے میں عبدالرزاق شر ایڈووکیٹ کے قتل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی، بنچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔
وکیل کو مبینہ طور پر کوئٹہ میں نامعلوم حملہ آوروں نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ بلوچستان ہائی کورٹ جا رہے تھے۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست مسترد کردی تھی، جبکہ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اور پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان کو نوٹس جاری کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کو کسی بھی ریلیف کے لیے پہلے عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔
جج نے کہا کہ ریلیف حاصل کرنے کے لیے درخواست گزار کو خود کو ہتھیار ڈالنا ہوں گے اور عمران خان کے وکیل سے کہا کہ وہ ذاتی طور پر پیش ہونے کے لیے اپنے موکل کو آگاہ کریں۔
اس کے بعد جج نے وکیل سے کہا کہ وہ اپنے موکل کو آج نہیں بلکہ پیر کو صبح ساڑھے دس بجے لائیں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت اس وقت تک ملتوی کردی۔
سماعت کے آغاز میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان آج عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں تو ان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ ایک گھنٹے میں پیش ہو سکتے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کے وکیل کا جواب جمع ہونے کے بعد ان کے لیے بہتر ہوگا کہ پیش ہوں۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ مسئلہ پی ٹی آئی چیئرمین کی وکیل کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا ہے، لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ وہ جے آئی ٹی کو تسلیم نہیں کرتے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی عبوری ریلیف کے لیے درخواست گزار کو عدالت آنا پڑے گا، ضمانت یا ایف آئی آر منسوخ کرانے کے لئے انہیں خود عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔
بلوچستان کے پراسیکیوٹر جنرل نے حکومت سے جواب جمع کرانے کے لیے کچھ وقت مانگا جبکہ سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو جواب جمع کرانے کے لیے مہلت دے دی۔
پی ٹی آئی سربراہ کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف مقدمہ قیاس آرائیوں کی بنیاد پر دائر کیا گیا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار نے پوری ایف آئی آر کو چیلنج کیا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ قتل کے معاملے میں ایف آئی آر کو کیسے منسوخ کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس یحییٰ نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر خارج کرانے کے لیے پہلے مناسب فورم سے رابطہ کیوں نہیں کیا گیا؟
لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ وہ بلوچستان ہائی کورٹ کا آپشن استعمال کرنے کے بعد سپریم کورٹ آئے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ درخواست میں کہا جائے کہ کیس بے بنیاد ہے، جب تفتیشی افسر نے چیئرمین پی ٹی آئی کو ملزم نہیں کہا تو پھر کیس کیا تھا؟
لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ تفتیشی افسر کی رائے ہے کہ ملزم تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہا۔
جج نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کس نے جاری کیے اور کیسے؟
بلوچستان حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کی معلومات کے مطابق پی ٹی آئی سربراہ کے خلاف کوئی وارنٹ نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ مقتول وکیل کی بیوہ کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا قتل سے کوئی تعلق نہیں، عبدالرزاق شر کے سوتیلے بیٹے نے عمران خان کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔