امریکہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغان طالبان کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے ملک کو دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ کیا جائے، کیونکہ پاکستان اس ہمسایہ ملک پر سخت گیر ٹی ٹی پی کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ افغانستان کو دہشت گرد حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکا جا رہا ہے۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے، جب پاک فوج کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے دیگر گروہوں کے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور کارروائی کی آزادی اسلام آباد کی سلامتی کو متاثر کرنے والی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت 258 ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں فوج نے نشاندہی کی کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان میں اپنی پناہ گاہوں کی وجہ سے جدید ترین ہتھیاروں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں جب ٹی ٹی پی نے اسلام آباد کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ختم کر دیا تھا، تب سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور مسلح افواج نے بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کوششیں تیز کر دی ہیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ اسے اس بات پر شدید تشویش ہے کہ عسکریت پسندوں کو پڑوسی ملک میں محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں اور دو حملوں میں اس کے 12 جوانوں کی شہادت کے بعد موثر جواب لینے کی دھمکی دی تھی۔
اگست 2021 میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور عبوری حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں، جن میں سرحد پار حملوں کا ذمہ دار ٹی ٹی پی بھی شامل ہے۔
آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی جاری کردہ اعداد و شمار کی رپورٹ کے مطابق 2023 کی پہلی ششماہی کے دوران ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں 79 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
بی بی سی پشتو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کے جواب میں کہ افغانستان دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا، کہا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط نہیں کیے، جس پر پاکستانی رہنماؤں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
ایک علیحدہ پریس کانفرنس میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ پاکستان یا اس کی سرحد پر موجود افغان پناہ گزین انتہا پسندی کی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیکھا کہ پاکستان یا اس سرحد پر موجود افغان پناہ گزین دہشت گردی کی کارروائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔