سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے چیئرمین سینیٹر عبدالقادر نے روس سے درآمد کیا جانے والا تیل مہنگا اور ناقص معیار کے خدشات کو مسترد کردیا ہے۔
سینیٹر قادر کا یہ بیان روس سے تیل درآمد کرنے کی افادیت پر سوال اٹھانے والی رپورٹس کے جواب میں سامنے آیا ہے۔
اسلام آباد میں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ روس سے حاصل ہونے والا تیل تقریبا 25 فیصد سستا ہوگا، جس کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ ایک کھرب روپے سے زائد کی بچت ہوگی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسٹوریج کی کمی کی وجہ سے روس نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے فلوٹنگ اسٹوریج یونٹ فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ریفائنریوں نے روسی خام تیل کو مؤثر طریقے سے صاف کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا ہے، جس سے اس کے معیار کے بارے میں کسی بھی خدشات کو دور کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت روس کے ساتھ تیل کی درآمد کے انتظامات کے لئے قواعد و ضوابط کے بروقت قیام کو یقینی بنائے گی۔
پاکستان کو اب تک روسی تیل کے تین کارگو موصول ہو چکے ہیں، پہلا کارگو 12 جون 2023 کو کراچی پہنچا تھا۔ یہ 45 ہزار میٹرک ٹن خام تیل کی کھیپ تھی۔
دوسرا کارگو 17 جون 2023 کو 50 ہزار میٹرک ٹن خام تیل لے کر پہنچا تھا، تیسرا کارگو 5 جولائی 2023 کو پہنچا۔ یہ 55,000 میٹرک ٹن کی شپمنٹ تھی۔
حکومت نے کہا ہے کہ وہ 2023 میں مجموعی طور پر 100،000 میٹرک ٹن روسی تیل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔