سویڈن کے وزیر انصاف گنر سٹرومر نے کہا ہے کہ حکومت اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا وہ قرآن پاک یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی کتابوں کی بے حرمتی پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔
عراق سے سویڈن ہجرت کرنے والے ایک شخص نے عید الاضحی کے پہلے روز اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن پاک کے صفحات جلائے، جس پر مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور پوپ فرانسس نے اس کی مذمت کی۔
سویڈش سکیورٹی سروسز نے اس واقعے کے ردعمل میں دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے ملک کم محفوظ رہ گیا ہے۔
سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پولیس نے اس سال احتجاج کرنے اور قرآن پاک جلانے کی اجازت مانگنے والی متعدد درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
تاہم سویڈن کی عدالتوں نے پولیس کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات ملک میں اظہار رائے کی آزادی کے دور رس قوانین کے تحت محفوظ ہیں۔
تاہم ، ایفٹن بلیڈٹ اخبار سے بات کرتے ہوئے، اسٹرمر نے کہا کہ حکومت صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
وزیر انصاف نے کہا کہ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ آیا موجودہ حکم نامہ اچھا ہے یا اس پر نظر ثانی کرنے کی کوئی وجہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سویڈن حملوں کا “ترجیحی ہدف” بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے قرآن کو جلانے سے ہماری داخلی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
اس واقعے نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی کوشش کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ان کا ملک سویڈن کی درخواست کی توثیق نہیں کر سکتا۔