اسلام آباد: پنجاب حکومت نے 9 مئی کو ہونے والی مبینہ توڑ پھوڑ میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات اور گرفتار ملزمان سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالت میں عام شہریوں کے خلاف مقدمات کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران حکام سے تفصیلات فراہم کرنے کو کہا تھا۔
تاہم اس رپورٹ میں نابالغوں، صحافیوں، وکلاء یا زیر حراست افراد کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی نقوی پر مشتمل 7 رکنی بینچ نے فوجی ٹرائلز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
حکومت نے پارٹی کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے مشتعل مظاہرین کی جانب سے فوجی تنصیبات میں توڑ پھوڑ کے بعد شہریوں کے خلاف فوجی قوانین کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، ماہر قانون اعتزاز احسن اور پائلر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی سمیت سول سوسائٹی کے پانچ ارکان کی جانب سے دائر درخواستوں میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ ملٹری ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔