امریکی صدر جو بائیڈن نے کیلیفورنیا میں فنڈ ریزنگ کی ایک تقریب میں چینی صدر شی جن پنگ کو ڈکٹیٹر قرار دیا ہے۔
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بیجنگ میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی، جس کا مقصد دونوں سپر پاورز کے درمیان کشیدگی کو کم کرنا تھا۔
جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ شی جن پنگ اس وقت شرمندہ تھے، جب امریکہ نے مبینہ طور پر چینی جاسوس غبارے کو مار گرایا تھا، چین نے کہا ہے کہ وہ صدر بائیڈن کے بیان کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ جب میں نے جاسوسی کے آلات سے بھری دو باکس کاروں کے ساتھ اس غبارے کو گرایا تو شی جن پنگ کے بہت پریشان ہونے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ وہاں موجود ہے، یہ ڈکٹیٹروں کے لئے ایک بڑی شرمندگی ہے. جب وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا ہوا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے صدر بائیڈن کے بیان کو انتہائی مضحکہ خیز اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔
باقاعدگی سے طے شدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک کھلی سیاسی اشتعال انگیزی ہے جو سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ غبارہ موسم کی نگرانی کر رہا تھا اور فروری میں امریکی فوجی طیاروں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے قبل براعظم امریکہ میں بہہ گیا تھا۔
واشنگٹن نے بعد میں کہا کہ یہ چینی انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے وسیع پروگرام کا حصہ تھا، بلنکن، جو اس وقت بیجنگ کا دورہ کرنے والے تھے، نے غبارے کے حادثے کے پیش نظر اپنا دورہ ملتوی کر دیا۔
اس ہفتے کے آخر میں ان کا یہ پہلا دورہ تھا جو تقریبا پانچ سال میں کسی امریکی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ تھا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح ی رابطے دوبارہ شروع ہوئے۔
شی جن پنگ نے کہا کہ بیجنگ میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے جبکہ مسٹر بلنکن نے اشارہ دیا کہ دونوں فریق مزید بات چیت کے لئے تیار ہیں، تاہم دونوں ممالک کے درمیان بڑے اختلافات باقی ہیں.
ٹرمپ دور کی تجارتی جنگ، تائیوان پر بیجنگ کے جارحانہ دعووں اور مبینہ جاسوس غبارے کو مار گرانے کے بعد تعلقات میں گراوٹ آئی ہے۔