پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اپنی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ‘غیر حقیقی’ اور ‘انتخابی بجٹ’ پیش کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے معاشی غیر یقینی صورتحال کے باوجود اس ‘پاپولسٹ’ اقدام کے پیچھے پارٹی کے ارادے پر سوال اٹھایا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے کہا کہ شہباز شریف کی حکومت نے قانون سازوں کو بتایا کہ بجٹ میں ‘سخت فیصلے’ کیے جائیں گے، تاہم ایسا کوئی اقدام سامنے نہیں آیا تھا.
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 9 جون کو 14.5 ٹریلین روپے (تقریبا 50.5 بلین ڈالر) کا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں سے نصف سے زیادہ 7.3 ٹریلین روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مختص کیے گئے تھے، جس سے معیشت کے مستقبل کے بارے میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ معاشی طوفان ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے، آئی ایم ایف پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے اور آنے والے دنوں میں معیشت مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔
کمیٹی کے چیئرمین قیصر احمد شیخ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اہم عہدے کے باوجود انہیں بریفنگ نہیں دی گئی، آئی ایم ایف کے معاملات کے بارے میں بریفنگ بھی نہیں مانگی گئی لیکن انہیں کوئی اپ ڈیٹ نہیں دی گئی۔
ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے جو ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں، چیئرمین نے کہا کہ ان بینکوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جنہوں نے تاجروں کے ساتھ ناانصافی کی اور لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے سے گریز کیا جس کی وجہ سے کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں اور وہ جو ڈالر کے ریٹ میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔
اجلاس کے آغاز پر کمیٹی نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔
قیصر احمد شیخ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وزیر خزانہ کو اس کمیٹی سے کیا مسئلہ ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پوری کاروباری برادری اپنی کاروباری تجاویز کے ساتھ اجلاس میں موجود تھی۔
تاہم اسحاق ڈار بعد میں اجلاس میں پہنچے اور کمیٹی کو مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ کے بارے میں بریفنگ دی۔
وزیر خزانہ نے بجٹ اسٹریٹجی پیپر کی تیاری میں تاخیر کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں تاخیر کو قرار دیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما کی جانب سے درج کرائی گئی شکایات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر یہ انتخابی سال نہ بھی ہوتا تو بجٹ وہی رہتا۔