سپریم کورٹ نے نظرثانی قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے توہین عدالت کی درخواستوں پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر باہر پرندوں کی چہچہاہٹ کی آواز سن کر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل پاکستان کو بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ ان کے لیے کوئی پیغام لے کر آئے ہوں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ امید ہے پیغام مثبت ہوگا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک وقت تھا جب کبوتر پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
سماعت کے دوران اے جی پی نے منظور الٰہی کیس میں آرٹیکل 184 (3) کے تحت فیصلہ سنایا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت اپیل کا دائرہ کار کیسے اور کیوں بڑھایا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کو قانون پر اعتراض نہیں لیکن ان کی رائے ہے کہ یہ آئینی ترمیم کے ذریعے ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ دائرہ اختیار میں توسیع کی جانی چاہیے لیکن اس کی وجوہات کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت فیصلوں پر نظر ثانی اور دیگر فیصلوں میں فرق سمجھ نہیں آتا۔
میرے لیے سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں پر نظر ثانی کا معیار ایک جیسا ہے، لیکن جو قانون نافذ کیا گیا ہے اس کے فیصلوں کے لئے مختلف معیار ہیں۔
اے جی پی نے دلیل دی کہ وقت کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ کار میں توسیع کی گئی ہے اور اسی طرح اس کے تحت اس پر نظر ثانی کی جانی چاہئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ اگر وہ کارروائی کی طرح نظرثانی کرنا چاہتے ہیں تو اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اس کے لیے درست قانونی طریقہ کار اپنایا جانا چاہیے، اٹارنی جنرل نے کہا، میں عدالت کو یہ بھی بتاؤں گا کہ نظرثانی کیسے ہوئی۔