اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایگزیکٹو کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت سے خبردار کردیا۔
اٹارنی جنرل منصور امان اعوان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چیف جسٹس سمیت دو جج اس معاملے میں ملوث ہیں۔
چیف جسٹس کا یہ ریمارکس سپریم کورٹ میں عدلیہ کے ارکان کی مختلف آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم اعلیٰ اختیاراتی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سامنے آیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری، سیکرٹری ایس سی بی اے مقتدر اختر شبیر، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی کی درخواستوں پر سماعت کی۔
تمام درخواستوں میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ 28 مئی کو درخواستوں کی سماعت کے دوران اسی بینچ نے بینچ تشکیل دینے والے نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے کمیشن کے کام پر روک لگا دی تھی۔
سماعت سے پہلے زبیری نے بنچ کو مختلف ہائی کورٹس کے متعدد احکامات پیش کیے، جن میں درخواست کی گئی تھی کہ موجودہ معاملے کے “مناسب فیصلے” کے لئے ان دستاویزات پر غور کیا جائے۔
ان احکامات میں سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلے بھی شامل تھے۔
اس سے قبل 31 مئی کو ہونے والی سماعت میں وفاقی حکومت نے چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس احسن اقبال اور جسٹس اختر کو بینچ سے الگ ہونے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کی سماعت کرنے والا بینچ دوبارہ تشکیل دیا جائے۔
مزید برآں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن نے بھی درخواستوں کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھائے اور کہا کہ بنچ کے لیے درخواستوں کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
کمیشن نے کہا کہ عدالتی پینل کو اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اسے دی گئی ذمہ داری کو پورا کیا جائے اور آئین اور قانون کے مطابق سختی سے ایسا کیا جائے۔