وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ 9 مئی کو توڑ پھوڑ کے بعد دائر کیے گئے 500 مقدمات میں سے صرف 6 پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے، انہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے اس تاثر کو مسترد کیا کہ گرفتار ہونے والے تمام افراد کو فوجی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے 9 مئی کے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے بارے میں فضا کو صاف کرنے کی کوشش میں آج ایک پریس کانفرنس میں کہا، باقی مقدمات پر عام عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مختلف تجزیے اور سازشیں پھیل رہی ہیں، اس لیے میں نے بہتر سمجھا کہ یہاں آ کر حقائق اور اعداد و شمار بیان کروں۔
سرکاری اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف اب تک کی گئی قانونی کارروائی کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزارت داخلہ نے کہا کہ ملک بھر میں شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 499 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
ان میں سے 88 کا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت درج کیا گیا ہے جبکہ 411 دیگر الزامات کے تحت درج کیے گئے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے مزید بتایا کہ دونوں صوبوں میں 3944 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں سے 2588 کو پنجاب سے حراست میں لیا گیا ہے، جبکہ 1099 کو کے پی حکام نے گرفتار کیا ہے۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ دیگر مقدمات میں مزید 5536 گرفتاریاں کی گئیں، تاہم ان میں سے 80 فیصد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
مزید برآں انہوں نے ان افواہوں کی سختی سے تردید کی کہ تمام مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے اور وضاحت کی کہ 499 مقدمات میں سے صرف سات پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ ہر چیز کو فوجی عدالتوں میں لے جایا جا رہا ہے، یہ سچ نہیں ہے، پنجاب میں صرف 19 اور کے پی میں 14 ملزمان کو فوجی عدالتوں میں منتقل کیا گیا ہے، کہیں اور یہ اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔