اسلام آباد: حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کیلئے تشکیل دیئے گئے 5 رکنی بینچ میں شامل کرنے پر اعتراض اٹھا دیا۔
ایک روز قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
درخواستوں کو چیلنج کرنے والوں میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، مقتدر اختر شبیر، ایڈووکیٹ ریاض حنیف اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہ زبیری شامل ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 5 رکنی بنچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے چیف جسٹس سے معافی مانگ لی، جس پر چیف جسٹس کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ درخواست ہے کہ چیف جسٹس اس بینچ کا حصہ نہ بنیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے جواب میں استفسار کیا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ میں بینچ چھوڑ دوں؟ آپ کو ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
سپریم کورٹ کے جج نے مزید کہا کہ وہ منصور عثمان اعوان کی درخواست کا احترام کرتے ہیں لیکن چیف جسٹس کا عہدہ آئینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں جانتا تھا کہ آپ یہ اعتراض اٹھائیں گے، عدلیہ حکومت کے ماتحت نہیں ہے، آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے۔
چیف جسٹس نے منصور عثمان اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔
ملک کے سب سے بڑے جج نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کے لئے قانون سازی کرنے کے حکومت کے جلد بازی کے فیصلے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت ججز کو اپنے مقاصد کے لیے کیسے استعمال کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے، اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت سے گزارش کریں آئینی روایات کا احترام کریں، سپریم کورٹ کے جج کی نامزدگی کا فورم صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہے۔